الادب المفرد
كِتَابُ الأقوال -- كتاب الأقوال
351. بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ‏:‏ يَا بُنَيَّ، لِمَنْ أَبُوهُ لَمْ يُدْرِكِ الإسْلَامَ
جس کا باپ مسلمان نہ ہو اسے يَا بُنَيَّ کہہ کر پکارنے کا حکم
حدیث نمبر: 807
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ سَلْمٍ الْعَلَوِيِّ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ‏:‏ كُنْتُ خَادِمًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ‏:‏ فَكُنْتُ أَدْخُلُ بِغَيْرِ اسْتِئْذَانٍ، فَجِئْتُ يَوْمًا، فَقَالَ‏:‏ ”كَمَا أَنْتَ يَا بُنَيَّ، فَإِنَّهُ قَدْ حَدَثَ بَعْدَكَ أَمْرٌ‏:‏ لا تَدْخُلَنَّ إِلا بِإِذْنٍ‏.‏“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم تھا اور بغیر اجازت کے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر چلا جاتا تھا، چنانچہ ایک دن میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے بیٹے! ٹھہر جاؤ، تیرے جانے کے بعد نیا حکم نازل ہوا ہے۔ اب بغیر اجازت کے اندر ہرگز نہیں آنا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 13176 و الطحاوي فى شرح معاني الآثار: 333/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 7795 - أنظر الصحيحة: 2957»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 807  
1
فوائد ومسائل:
(۱)ترجمۃ الباب سے اس کا تعلق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کو بیٹا کہہ بلایا، اس سے معلوم ہوا کہ استاد اپنے شاگردوں کو ازراہ شفقت بیٹا کہہ کر پکار سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
(۲) یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی دلیل ہے کہ آپ نے نہایت خوبصورت انداز میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو شرعی حکم سکھایا۔ نیز معلوم ہوا کہ سمجھ دار بچوں کو شرعی احکام سکھانے چاہئیں خواہ وہ بلوغت کی عمر کو نہ بھی پہنچے ہوں۔
(۳) یہ حکم پردے کے احکام نازل ہونے کے بعد دیا گیا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 807