الادب المفرد
كِتَابُ الأسْمَاءِ -- كتاب الأسماء
357. بَابُ تَحْوِيلِ الاِسْمِ إِلَى الاِسْمِ
نام بدلنے کا بیان
حدیث نمبر: 816
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ قَالَ‏:‏ أُتِيَ بِالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وُلِدَ، فَوَضَعَهُ عَلَى فَخِذِهِ، وَأَبُو أُسَيْدٍ جَالِسٌ، فَلَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَمَرَ أَبُو أُسَيْدٍ بِابْنِهِ فَاحْتُمِلَ مِنْ فَخِذِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفَاقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏:‏ ”أَيْنَ الصَّبِيُّ‏؟“‏ فَقَالَ أَبُو أُسَيْدٍ‏:‏ قَلَبْنَاهُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ‏:‏ ”مَا اسْمُهُ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ فُلاَنٌ، قَالَ‏: ”لَا، لَكِنِ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ“، فَسَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ الْمُنْذِرَ‏.
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ منذر بن ابى اسید پیدا ہوئے تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ بھی وہیں بیٹھے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول ہو گئے، سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ کے کہنے پر بچے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے اٹھا لیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فارغ ہو کر توجہ فرمائی تو پوچھا: بچہ کہاں ہے؟ سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اسے گھر بھیج دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: فلاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس کا نام منذر ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن اس کا نام منذر رکھا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6191 و مسلم: 2149 - انظر المشكاة: 4759»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 816  
1
فوائد ومسائل:
(۱)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا تو گھٹی اور دعا کے لیے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے۔ آپ گھٹی دیتے اور برکت کی دعا بھی فرماتے۔ اسی غرض کے لیے منذر رضی اللہ عنہ کو لایا گیا۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ گھٹی کسی نیک آدمی سے دلوانا مستحسن امر ہے۔
(۳) نام زندگی کے کسی حصے میں بھی بدلا جاسکتا ہے۔ اگر نام شرکیہ یا قبیح ہو تو اسے بدلنا ضروری ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 816