الادب المفرد
كِتَابُ الْكَلامِ -- كتاب الكلام
389. بَابُ يُقَالُ لِلرَّجُلِ وَالشَّيْءِ وَالْفَرَسِ‏:‏ هُوَ بَحْرٌ
آدمی، گھوڑے یا کسی چیز کو بحر کہنا
حدیث نمبر: 879
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ‏:‏ كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ، فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لأَبِي طَلْحَةَ، يُقَالُ لَهُ‏:‏ الْمَنْدُوبُ، فَرَكِبَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ‏:‏ ”مَا رَأَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا‏.‏“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات اہلِ مدینہ پر خوف و ہراس طاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھا، اور اس پر سوار ہو کر آگے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو فرمایا: ہم نے کوئی چیز نہیں دیکھی، اور ہم نے اس گھوڑے کو بحر پایا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الهبة، باب من استعار من الناس الفرس: 2627 و مسلم: 2307 و أبوداؤد: 4988 و الترمذي: 1685 و النسائي فى الكبرىٰ: 8770 و ابن ماجه: 2772»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 879  
1
فوائد ومسائل:
(۱)ایک دفعہ مدینہ کے آس پاس سے نامانوس آوازیں آئیں جس سے لوگ گھبرا گئے اور پورا مدینہ خوف سے لرز اٹھا۔ ابھی لوگ آگے جاکر خبر لینے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا ہی اس جانب سے آتا دیکھا۔ آپ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لے کر زین ڈالے بغیر ہی اس طرف چلے گئے۔ آپ نے فرمایا:ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم واپس چلے جاؤ میں تمام جائزہ لے کر آیا ہوں۔ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔
(۲) اس سے آپ کی بہادری کا پتہ چلا کہ آپ سب لوگوں سے بڑھ کر بہادر تھے۔
(۳) آپ نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی تعریف فرمائی کہ وہ تو گویا سمندر ہے، یعنی نہایت تیز رفتار ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہو بحر کی اصطلاح انسان کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور اس سے مراد سخاوت ہوگی۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 879