الادب المفرد
كِتَابُ السَّلامِ -- كتاب السلام
442. بَابُ الْمُعَانَقَةِ
معانقے کا بیان
حدیث نمبر: 970
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنِ ابْنِ عَقِيلٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ بَلَغَهُ حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَابْتَعْتُ بَعِيرًا فَشَدَدْتُ إِلَيْهِ رَحْلِي شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَيْسٍ، فَبَعَثْتُ إِلَيْهِ أَنَّ جَابِرًا بِالْبَابِ، فَرَجَعَ الرَّسُولُ فَقَالَ‏:‏ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ‏؟‏ فَقُلْتُ‏:‏ نَعَمْ، فَخَرَجَ فَاعْتَنَقَنِي، قُلْتُ‏:‏ حَدِيثٌ بَلَغَنِي لَمْ أَسْمَعْهُ، خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ أَوْ تَمُوتَ، قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”يَحْشُرُ اللَّهُ الْعِبَادَ، أَوِ النَّاسَ، عُرَاةً غُرْلاً بُهْمًا“، قُلْتُ‏:‏ مَا بُهْمًا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ، أَحْسَبُهُ قَالَ‏:‏ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ‏:‏ أَنَا الْمَلِكُ، لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةٍ، وَلاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَدْخُلُ النَّارَ وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةٍ“، قُلْتُ‏:‏ وَكَيْفَ‏؟‏ وَإِنَّمَا نَأْتِي اللَّهَ عُرَاةً بُهْمًا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ‏.“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کے پاس ہے، تو میں نے ایک اونٹ خریدا۔ اور اپنی سواری پر ایک مہینے کا سفر طے کر کے ان کے پاس شام پہنچا۔ پتہ چلا تو وہ صحابی سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے پیغام بھیجا کہ جابر تمہارے دروازے پر آیا ہے۔ قاصد واپس آیا تو اس نے کہا: جابر بن عبداللہ؟ میں نے کہا: ہاں۔ سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں نے کہا: مجھے ایک حدیث کا پتہ چلا ہے جو میں نے نہیں سنی، مجھے خدشہ گزرا کہ آپ کو یا مجھے موت آجائے اور میں براہِ راست نہ سن سکوں۔ انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: الله تعالیٰٰ لوگوں کو اس طرح جمع فرمائے گا کہ وہ ننگے جسم ہوں گے، بغیر ختنوں کے ہوں گے اور بہم ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: بہم کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی، پھر اللہ تعالیٰٰ انہیں آواز دے گا جو ہر دور نزدیک والا اس کو برابر سنے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ کوئی جنتی جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک کہ اس پر کسی جہنمی کا کوئی حق باقی ہے، اور کوئی دوزخی اس وقت تک دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جب تک اس پر کسی جنتی کا حق ہے۔ میں نے عرض کیا: حقوق کی ادائیگی کیسے ہوگی جبکہ ہم اللہ تعالیٰٰ کے پاس کپڑوں سے ننگے ہوں گے اور اس کے علاوہ بھی کوئی چیز نہ ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکیوں اور برائیوں سے لین دین ہوگا۔

تخریج الحدیث: «حسن: مسند أحمد: 495/3»

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 970  
1
فوائد ومسائل:
(۱)اس سے ثابت ہوا کہ سفر سے آنے والے بھائی کے ساتھ گلے ملنا مستحب ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ عام ملاقات میں سلام اور مصافحے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔
(۲) حصول حدیث، اس کے لیے تگ و دو، اسے اکٹھا کرنے کا جذبہ دور صحابہ ہی میں موجود تھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہی اس کا اہتمام شروع کر دیا تھا۔ اس لیے یہ مفروضہ سر تا سر غلط ہے کہ حدیث کی تدوین سو سال بعد شروع ہوئی۔ تابعین کے دور سے باقاعدہ تدوین کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخری صحابی کے فوت ہوجانے کے بعد اس کا آغاز ہوا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے ہی تابعین کے دور کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس دور سے انہوں نے احادیث رسول جمع کرنی شروع کر دیں تھیں۔
(۳) باہمی حقوق کا معاملہ دنیا ہی میں حل کر لینا چاہیے۔ روز محشر صورت حال بہت سنگین ہوگی۔ وہاں کسی کے مارے ہوئے حق کے بدلے میں نیکیاں دینی پڑیں گی یا پھر دوسرے کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ أعاذنا اللّٰه منه۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 970