الادب المفرد
كِتَابٌ -- كتاب
548. بَابُ إِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا
کسی کی طرف متوجہ ہوں تو پوری طرح متوجہ ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1155
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْعَلاَءِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَصِفُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ كَانَ رَبْعَةً، وَهُوَ إِلَى الطُّوَلِ أَقْرَبُ، شَدِيدُ الْبَيَاضِ، أَسْوَدُ شَعْرِ اللِّحْيَةِ، حَسَنُ الثَّغْرِ، أَهْدَبُ أَشْفَارِ الْعَيْنَيْنِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، مُفَاضُ الْجَبِينِ، يَطَأُ بِقَدَمِهِ جَمِيعًا، لَيْسَ لَهَا أَخْمُصُ، يُقْبِلُ جَمِيعًا، وَيُدْبِرُ جَمِيعًا، لَمْ أَرَ مِثْلَهُ قَبْلُ وَلا بَعْدُ‏.‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک درمیانہ تھا لیکن قدرے درازی تھی۔ رنگ نہایت سفید، داڑھی کے بال خوب کالے تھے، دانت نہایت خوبصورت، اور آنکھوں کی پلکیں دراز تھیں۔ دونوں مونڈھوں کے درمیان دوری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار برابر تھے۔ پورا قدم جما کر چلتے، تلوؤں میں گہرائی نہیں تھی۔ جب کسی طرف متوجہ ہوتے تو پوری طرح متوجہ ہوتے، اور جب رخ پھیرتے تو بھی پوری طرح ادھر متوجہ ہوتے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «حسن لغيره: أخرجه معمر فى جامعه: 20490 و الطبراني فى مسند الشاميين: 1717 و البيهقي فى دلائل النبوة: 251/1 و ابن عساكر فى تاريخ دمشق: 269/3»

قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1155  
1
فوائد ومسائل:
(۱)اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف جاتے یا کسی سے بات کرتے تو پوری توجہ اس طرف ہوتی۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ بات کسی سے کر رہے ہوں اور توجہ کہیں اور ہو یا چل کسی طرف رہے اور توجہ یا منہ کسی اور طرف ہو۔ اگر کسی طرف دیکھنا ہوتا تو مکمل مڑ کر دیکھتے۔
(۲) اس کے علاوہ آپ کی دیگر صفات کا ذکر بھی ہے کہ آپ کا قد زیادہ لمبا نہیں تھا بلکہ درمیانہ لمبا تھا۔ لوگوں میں کھڑے ہوتے تو دراز معلوم ہوتے۔
(۳) پاؤں زیادہ ٹیڑھا نہ تھا کہ تلوؤں میں زیادہ خلا ہو بلکہ معمولی سی گہرائی تھی۔ پاؤں کا زیادہ حصہ زمین سے مس کرتا تھا۔ اسی طرح آپ کے شانوں کا ذکر ہے کہ وہ چوڑے تھے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1155