الادب المفرد
كِتَابٌ -- كتاب
563. بَابُ مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ
گھٹنوں کے بل بیٹھنا
حدیث نمبر: 1184
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمُ الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ، وَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ‏: ”مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لاَ تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلاَّ أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا“، قَالَ أَنَسٌ‏:‏ فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ‏:‏ ”سَلُوا“، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَقَالَ‏:‏ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً، فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ ذَلِكَ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”أَوْلَى، أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ‏.‏“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی۔ سلام پھیر کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اس میں بڑے بڑے حادثات رونما ہوں گے، پھر فرمایا: جو مجھ سے کسی بھی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ پوچھ لے۔ الله کی قسم! جب تک میں اس جگہ موجود ہوں تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھو گے میں تمہیں بتاؤں گا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر بہت روئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے رہے: پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حالات قریب ہیں۔ خبردار مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی جانب پیش کی گئی اور میں نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے جس قدر خیر و شر آج دیکھا کبھی نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة: 7294 و مسلم: 2359»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1184  
1
فوائد ومسائل:
(۱)امام، محدث یا استاد کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھنا جائز ہے۔ نیز یہ ادب و احترام غیر شرعی نہیں ہے۔
(۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر مناسب سوالات ہوئے تو آپ اس وجہ سے ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایا:آج جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے معذرت کی۔
(۳) جہنم اور جنت دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور پیدا ہوچکی ہیں۔ جہنم نہایت ہولناک اور جنت نعمتوں کا گھر ہے۔
(۴) بعض حضرات اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی دلیل لیتے ہیں حالانکہ خود اس روایت میں اس کا جواب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ یہ اس وقت تک ہے جب تک میں اس جگہ پر موجود ہوں۔ گویا یہ آپ کا معجزہ تھا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1184