الادب المفرد
كِتَابُ -- كتاب
636. بَابٌ : شَرُّ النَّاسِ مَنْ يُتَّقَى شَرُّهُ
لوگوں میں برا آدمی وہ ہے جس کے شر سے بچا جائے
حدیث نمبر: 1311
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ قَالَ‏:‏ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ‏:‏ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ‏:‏ ”ائْذَنُوا لَهُ، بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ“، فَلَمَّا دَخَلَ أَلاَنَ لَهُ الْكَلاَمَ، فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، قُلْتَ الَّذِي قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ الْكَلاَمَ، قَالَ‏:‏ ”أَيْ عَائِشَةُ، إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ - أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ - اتِّقَاءَ فُحْشِهِ‏.‏“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اجازت دے دو، یہ اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے۔ چنانچہ جب وہ اندر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس آدمی کے بارے میں جو فرمایا سو فرمایا: پھر آپ نے اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا: اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترین وہ آدمی ہے جسے لوگ اس کی بدکلامی اور بدزبانی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب لم يكن النبى صلى الله عليه وسلم فاحشًا: 6054 و مسلم: 2591 و أبوداؤد: 4791 و الترمذي: 1996»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1311  
1
فوائد ومسائل:
(۱)حدیث کا مفہوم یہ ہے جو شخص بدزبان ہو اس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے ظاہراً اس کی تکریم کرنا جائز ہے تاکہ وہ بدکلامی کے ذریعے نقصان نہ پہنچائے۔ اسی طرح فاسق آدمی کے بارے میں لوگوں کو مطلع کرنا جائز ہے تاکہ وہ اس کی شرارتوں سے محفوظ رہیں اور یہ غیبت کے دائرے میں نہیں آتا۔
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات اس کے بارے میں فرمائی وہ برحق تھی اور اس کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ حسن اخلاق کی بنا پر تھا۔
(۳) یہ شخص عینیہ بن حصن فزاری تھا۔ جو مسلمان نہیں تھا لیکن باور یہ کراتا تھا کہ وہ مسلمان ہے۔ بعدازاں یہ مرتد ہوگیا اور اسے قیدی بنا کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی اس کی بدتمیزی کا واقع صحیح بخاری میں درج ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1311