سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
1. بَابُ مَا كَانَ عَلَيْهِ النَّاسُ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَهْلِ وَالضَّلَالَةِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگ جس جہالت و گمراہی میں مبتلا تھے اس کا بیان
حدیث نمبر: 4
حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ السَّامِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: "كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا أَصَبْنَا حَجَرًا حَسَنًا، عَبَدْنَاهُ، وَإِنْ لَمْ نُصِبْ حَجَرًا، جَمَعْنَا كُثْبَةً مِنْ رَمْلٍ، ثُمَّ جِئْنَا بِالنَّاقَةِ الصَّفِيِّ فَتَفَاجَّ عَلَيْهَا، فَنَحْلُبُهَا عَلَى الْكُثْبَةِ حَتَّى نَرْوِيَهَا، ثُمَّ نَعْبُدُ تِلْكَ الْكُثْبَةَ مَا أَقَمْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد الصَّفِيُّ: الْكَثِيرَةُ الْأَلْبَانِ.
ابورجاء سے روایت ہے کہ ہم دور جاہلیت میں کوئی اچھا پتھر پا جاتے تو اسی کی پوجا کرنے لگ جاتے تھے اور اگر کوئی اچھا سا پتھر نہ ملتا تو تھوڑی سی ریت جمع کرتے، پھر خوب دودھ والی اونٹنی لاتے اور اس کے پیر چوڑا کر کے اس ریت کے ڈھیر پر اس کا دودھ نکالتے اور اسے خوب سیراب کر دیتے تھے، پھر جب تک اس جگہ رہتے اس ڈھیر کی پوجا کرتے رہتے تھے۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «صفي» بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو کہتے ہیں، «فتفاج» کا مطلب ہے اونٹنی کی وہ صورت جب دودھ نکالنے کے لئے وہ اپنے پیر چوڑا دے، اسی لئے «فج» چوڑے راستے کو کہتے ہیں جس کی جمع «فجاج» ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عباد بن منصور كان يدلس وقد تغير بأخرة وهو موقوف على أبي رجاء عمران بن ملحان، [مكتبه الشامله نمبر: 4]»
یہ روایت بھی انفرادات امام دارمی سے ہے جو موقوف ہے اور اس کے راوی عباد بن منصور مدلس ہیں۔ ابورجاء کا نام عمران بن ملحان العطاردی ہے۔ اس معنی کی روایت ابونعیم اصبہانی نے ذکر کی ہے جس کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء: 306/2]

وضاحت: (تشریح احادیث 1 سے 4)
ان روایات (حدیث 1 سے 4) میں دور جاہلیت میں بچوں کو قتل کرنے، پتھروں کی پوجا کرنے، کتوں کی پرورش کرنے جیسے اعمال کا تذکرہ ہے، جن سے اسلام نے یک قلم روک دیا ہے۔
پہلی حدیث سے «الاسلام يهدم ماقبله» کی تائید ہوتی ہے، یعنی اسلام لانے کے بعد ماقبل اسلام کئے گئے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت وشفقت کہ دردناک قصہ سن کر رو پڑے۔
تیسری روایت میں معبودان باطلہ کی بے کسی و بے بسی ظاہر ہوتی ہے جو اپنے دفاع میں خود کچھ نہیں کر سکتے کسی کی مدد کیا کریں گے؟ (والله اعلم)۔