سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
2. باب صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الْكُتُبِ قَبْلَ مَبْعَثِهِ:
پچھلی کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کا بیان
حدیث نمبر: 12
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ التَّمِيمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ، وَمَعَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَأَقْعَدَهُ وَخَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: "لَا تَبْرَحَنَّ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يُكَلِّمُوكَ"، فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ، ثُمَّ جَعَلُوا يَنْتَهُونَ إِلَى الْخَطِّ لَا يُجَاوِزُونَهُ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، جَاءَ إِلَيَّ فَتَوَسَّدَ فَخِذِي، وَكَانَ إِذَا نَامَ، نَفَخَ فِي النَّوْمِ، نَفْخًا فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي، رَاقِدٌ، إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الْجِمَالُ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنْ الْجَمَالِ حَتَّى قَعَدَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، فَقَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَيْنَيْهِ لَتَنَامَانِ، وَإِنَّ قَلْبَهُ لَيَقْظَانُ، اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا: سَيِّدٌ بَنَى قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا، وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ:"أَتَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:"هُمْ الْمَلَائِكَةُ"، قَالَ:"وَهَلْ تَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوهُ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:"الرَّحْمَنُ بَنَى الْجَنَّةَ فَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ، فَمَنْ أَجَابَهُ، دَخَلَ جَنَّتَهُ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ، عَاقَبَهُ وَعَذَّبَهُ".
ابوعثمان النہدی سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کنکریلی زمین کی طرف نکلے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے، آپ نے انہیں بٹھایا اور ان کے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ دیا اور فرمایا: تم اسی دائرے کے اندر رہنا کیونکہ تمہارے پاس بہت سے لوگ آئیں گے، تم ان سے کوئی بات نہ کرنا، وہ بھی تم سے کوئی بات نہ کریں گے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف جانے کا ارادہ رکھتے تھے اسی طرف چلے گئے اور پھر اس دائرے کے ارد گرد لوگ آنے لگ گئے لیکن اس خط کے اندر کوئی نہیں آیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے رہے یہاں تک کہ جب رات کا آخری پہر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور میری ران کا تکیہ لگایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے، آپ اسی حال میں میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے کہ چند آدمی آ گئے، جو بڑے خوبصورت تھے، ان کے بدن پر سفید کپڑے تھے، اللہ تعالی خوب جانتا ہے ان کے اندر جو خوبصورتی و جمال تھا پھر ان میں سے ایک گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے اور ایک گروہ آپ کے پیروں کے پاس بیٹھ گیا، پھر وہ آپس میں کہنے لگے، ہم نے کوئی بندہ ایسا نہیں دیکھا جس کو وہ کچھ ملا ہو جو انہیں نبی کریم (محمد) صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیاٍ ہے، ان کی آنکھیں تو سوتی ہیں دل جاگتا ہے۔ ان کی مثال اس سردار کی سی ہے جس نے ایک محل بنایا اور اس میں دسترخوان لگایا اور لوگوں کو کھانے پینے کی دعوت دی، پھر وہ لوگ چلے گئے اور اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے۔ فرمایا: تم جانتے ہو یہ کون لوگ تھے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی اس کو خوب جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ فرشتے تھے، فرمایا: اور تم نے اس مثال کو سمجھا جو انہوں نے بیان کی؟ میں نے کہا: اللہ ورسولہ اعلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ) رحمٰن نے جنت بنائی اور اپنے بندوں کو اس کی طرف بلایا پس جس نے اس کی دعوت قبول کی وہ اس کی جنت میں داخل ہو گیا اور جس نے اس کی دعوت قبول نہ کی وہ اس کو سزا و عذاب دے گا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 12]»
دیکھئے: [مسند أحمد 399/1]، [ترمذي 2861 وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه]۔