سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
7. باب مَا أُكْرِمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في بَرَكَةِ طَعَامِهِ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کھانے میں برکت کا بیان
حدیث نمبر: 43
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَيْمَنَ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ أَرْوِيهِ عَنْكَ، فَقَالَ جَابِرٌ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفُرُهُ، فَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَطْعَمُ طَعَامًا، وَلَا نَقْدِرُ عَلَيْهِ، فَعَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ كُدْيَةٌ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ كُدْيَةٌ قَدْ عَرَضَتْ، فِي الْخَنْدَقِ فَرَشَشْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ، فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، أَوْ الْمِسْحَاةَ، ثُمَّ سَمَّى ثَلَاثًا، ثُمَّ ضَرَبَ فَعَادَتْ كَثِيبًا أَهْيَلَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي، قَالَ: فَأَذِنَ لِي، فَجِئْتُ امْرَأَتِي، فَقُلْتُ: ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ قَدْ رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَا صَبْرَ لِي عَلَيْهِ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟، فَقَالَتْ: عِنْدِي صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَعَنَاقٌ، قَالَ: فَطَحَنَّا الشَّعِيرَ، وَذَبَحْنَا الْعَنَاقَ، وَسَلَخْتُهَا، وَجَعَلْتُهَا، فِي الْبُرْمَةِ وَعَجَنْتُ الشَّعِيرَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَبِثْتُ سَاعَةً، ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُهُ الثَّانِيَةَ فَأَذِنَ لِي، فَجِئْتُ، فَإِذَا الْعَجِينُ قَدْ أَمْكَنَ، فَأَمَرْتُهَا بِالْخَبْزِ وَجَعَلْتُ الْقِدْرَ عَلَى الْأَثَاثِي، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّمَا هِيَ الْأَثَافِيُّ وَلَكِنْ هَكَذَا، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عِنْدَنَا طُعَيِّمًا لَنَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَقُومَ مَعِي أَنْتَ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ مَعَكَ، فَقَالَ: "وَكَمْ هُوَ؟"، قُلْتُ: صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَعَنَاقٌ، فَقَالَ:"ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ وَقُلْ لَهَا لَا تَنْزِعْ الْقِدْرَ مِنْ الْأَثَافِيِّ، وَلَا تُخْرِجْ الْخُبْزَ مِنْ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ"، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:"قُومُوا إِلَى بَيْتِ جَابِرٍ"، قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ حَيَاءً لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: ثَكِلَتْكِ أُمُّكِ، قَدْ جَاءَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ، فَقَالَتْ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَكَ: كَمْ الطَّعَامُ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَدْ أَخْبَرْتَهُ بِمَا كَانَ عِنْدَنَا، قَالَ: فَذَهَبَ عَنِّي بَعْضُ مَا كُنْتُ أَجِدُ، وَقُلْتُ: لَقَدْ صَدَقْتِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:"لَا تَضَاغَطُوا"،"ثُمَّ بَرَّكَ عَلَى التَّنُّورِ وَعَلَى الْبُرْمَةِ"، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَأْخُذُ مِنْ التَّنُّورِ الْخُبْزَ، وَنَأْخُذُ اللَّحْمَ مِنْ الْبُرْمَةِ، فَنُثَرِّدُ وَنَغْرِفُ لَهُمْ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لِيَجْلِسْ عَلَى الصَّحْفَةِ سَبْعَةٌ أَوْ ثَمَانِيَةٌ"، فَإِذَا أَكَلُوا كَشَفْنَا عَنْ التَّنُّورِ، وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ، فَإِذَا هُمَا أَمْلَأُ مِمَّا كَانَا، فَلَمْ نَزَلْ نَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّمَا فَتَحْنَا التَّنُّورَ وَكَشَفْنَا عَنْ الْبُرْمَةِ، وَجَدْنَاهُمَا أَمْلَأَ مَا كَانَا حَتَّى شَبِعَ الْمُسْلِمُونَ كُلُّهُمْ، وَبَقِيَ طَائِفَةٌ مِنْ الطَّعَامِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَصَابَتْهُمْ مَخْمَصَةٌ، فَكُلُوا وَأَطْعِمُوا"، فَلَمْ نَزَلْ يَوْمَنَا ذَلِكَ نَأْكُلُ وَنُطْعِمُ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُمْ كَانُوا ثَمَانَ مِئَةٍ، أَوْ قَالَ: ثَلَاثَ مِئَةٍ، قَالَ أَيْمَنُ: لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا قَالَ.
عبدالواحد بن ايمن مکی نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے ان سے سنی ہو تاکہ میں اسے روایت کر سکوں، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم غزوہ خندق کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گڈھا کھود رہے تھے، تین دن سے ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا اور نہ ہمارے پاس کچھ تھا ہی، اس خندق میں ایک چٹان نما ٹکڑا حائل ہو گیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! خندق میں یہ چٹان حائل ہو گئی ہے، ہم نے اس پر پانی چھڑک دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اس حال میں کہ آپ کے پیٹ سے پتھر بندھا ہوا تھا، آپ نے کدال یا پھاوڑا اٹھایا، تین بار بسم اللہ پڑھی اور ضرب لگائی تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھربھرے تودے میں تبدیل ہو گیا، میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! مجھے چھٹی دے دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت مرحمت فرما دی، چنانچہ میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور میں نے کہا تمہاری ماں تمہیں گم پائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت دیکھی ہے کہ صبر نہیں کر پا رہا ہوں، تمہارے پاس (کھانے کے لئے) کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا میرے پاس ایک صاع (تقریبا ڈھائی کیلو) جو کے دانے ہیں اور ایک یہ بھیڑ کا بچہ ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم نے جو پیسی اور بھیڑ کا بچہ ذبح کیا اور میں نے اس کی کھال اتاری اور ہانڈی چڑھا دی، آٹا گوندھ دیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آیا اور کچھ دیر انتظار کر کے پھر آپ سے اجازت چاہی اور آپ نے مجھے اجازت دے دی، میں (گھر) آیا آٹا تیار ہو چکا تھا، میں نے بیوی کو روٹی لگانے کے لئے کہا اور میں نے ہانڈی چولہے پر چڑھا دی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ہمارے پاس تھوڑا سا کھانا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ خود چلیں اور دو ایک آدمی بھی اپنے ساتھ لے چلیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آخر کتنا کھانا ہے؟ عرض کیا ایک صاع جو اور ایک بھیڑ کا بچہ ہے۔ آپ نے فرمایا: اپنی بیوی کے پاس جاؤ اور کہدو کہ ہانڈی چولہے سے نہ اتارے اور تندور سے میرے آنے تک روٹی بھی نہ نکالے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں سے کہا: چلو جابر کے گھر چلو، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے اتنی شرم آئی کہ اللہ ہی جانتا ہے، میں نے بیوی سے کہا: تمہاری ماں تمہیں گم پائے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں، انہوں نے کہا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے پوچھا تھا کتنا کھانا ہے؟ میں نے کہا ہاں پوچھا تو تھا، کہنے لگیں اللہ اور اس کے رسول زیادہ علم رکھتے ہیں، تم نے تو جو کچھ اپنے پاس ہے بتا دیا تھا، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیوی کے یہ کہنے سے میرا ڈر خوف رفع ہو گیا اور میں نے کہا: تم سچ کہتی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور داخل ہو گئے، اپنے صحابہ سے کہا: بھیٹر نہ لگانا، پھر آپ تندور اور بانڈری پر بیٹھ گئے اور برکت کی دعا کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تندور سے روٹیاں اور ہانڈی سے سالن لینے اور اس کا ثرید بنا کر پروسنے لگے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک) تھالی پر سات یا آٹھ افراد بیٹھ جائیں، جب وہ کھانا کھا لیتے تو ہم تندور اور ہانڈی کو کھول کر دیکھتے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ بھرے ہوئے نظر آتے، ہم اسی طرح کھلاتے رہے اور جب تندور و ہانڈی کو دیکھتے تو پہلے سے زیادہ بھرے نظر آتے یہاں تک کہ سب کے سب مسلمان شکم سیر ہو گئے اور اچھا خاصا کھانا بچا رہ گیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو بھوک کی مصیبت آ پڑی ہے کھاؤ اور کھلاؤ، لہذا ہم پورے دن کھاتے اور کھلاتے رہے۔ راوی نے کہا کہ مجھے انہوں نے بتایا کہ ان کی تعداد آٹھ سو تھی یا تین سو پتا نہیں انہوں نے کون سا عدد بتایا تھا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد الرحمن بن محمد المحاربي موصوف بالتدليس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 43]»
اس واقعے کی یہ سند ضعیف ہے، اسے [ابن ابي شيبة 11755] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 422/3] میں ذکر کیا ہے لیکن اس کی اصل [صحيح بخاري 2142، 4011] و [صحيح مسلم 2039] میں موجود ہے اس لئے واقعہ صحیح ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 43)
اس حدیث سے معلوم ہوا:
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کے ساتھ کام کرنا اور مشقتیں برداشت کرنا۔
❀ نبوت و رسالت کی نشانی چٹان کا تودہ بن جانا۔
❀ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے لوث محبت۔
❀ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کی فضیلت تھوڑے سے کھانے پر بھی کہتی ہیں: جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کھانا کتنا ہے تو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر و برکت اور ایک اور معجزہ تھوڑا سا کھانا آٹھ سو یا تین سو آدمی کے لئے کافی ہونا اور دن بھر کھاتے پیتے رہنا۔
❀ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایثار و محبت کہ صرف اکیلے نہیں بلکہ اللہ کے بھروسے پر سب کو ساتھ لے چلے اور کھانا کھلایا، کسی صحابی کو کسی پر ترجیح نہ دی بلکہ سب کو مدعو کر لیا۔