سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
17. باب التَّوَرُّعِ عَنِ الْجَوَابِ فِيمَا لَيْسَ فِيهِ كِتَابٌ وَلاَ سُنَّةٌ:
ایسا فتوی دینے سے احتیاط برتنے کا بیان جس کے بارے میں قرآن و حدیث سے دلیل نہ ہو
حدیث نمبر: 102
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَحُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُمَا كَانَا جَالِسَيْنِ فَجَاءَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُمَا عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ لِحُذَيْفَةَ: "لِأَيِّ شَيْءٍ تَرَى يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا؟، قَالَ: يَعْلَمُونَهُ ثُمَّ يَتْرُكُونَهُ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: مَا سَأَلْتُمُونَا عَنْ شَيْءٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى نَعْلَمُهُ، أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ، أَوْ سُنَّةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ، وَلَا طَاقَةَ لَنَا بِمَا أَحْدَثْتُمْ".
سیدنا عبدالله بن مسعود اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور ان سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جانتے ہو یہ لوگ اس چیز کے بارے میں مجھ سے کیوں سوال کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معلوم کر کے چھوڑ دیتے ہوں گے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جس چیز کے بارے میں تم نے سوال کیا اور اللہ کی کتاب میں سے ہمیں اس کا علم ہوا تو ہم نے تمہیں اس کی اطلاع دے دی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں جو چیز ہمیں ملی تمہیں بتا دی اور جو تم نے نئی باتیں ایجاد کر لیں ان کا فتوی دینے کی ہم میں طاقت نہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء وطريق ابن مسعود منقطعة لأن الشعبي لم يسمع منه، [مكتبه الشامله نمبر: 102]»
اس اثر کو صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں کئی علتیں ہونے کے سبب ضعیف ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 99 سے 102)
گرچہ یہ اثرِ سند ثابت نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ:
دین کے ماخذ صرف دو ہیں: کتاب اللہ و سنت رسول اللہ۔
جو چیز قرآن اور حدیث میں نہ ملے اس کا فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، اور علمی برتری جتانا نہیں چاہیے۔