سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
17. باب التَّوَرُّعِ عَنِ الْجَوَابِ فِيمَا لَيْسَ فِيهِ كِتَابٌ وَلاَ سُنَّةٌ:
ایسا فتوی دینے سے احتیاط برتنے کا بیان جس کے بارے میں قرآن و حدیث سے دلیل نہ ہو
حدیث نمبر: 115
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: قُلْتُ لِلْقَاسِمِ: مَا أَشَدَّ عَلَيَّ أَنْ تُسْأَلَ عَنْ الشَّيْءِ لَا يَكُونُ عِنْدَكَ وَقَدْ كَانَ أَبُوكَ إِمَامًا، قَالَ: "إِنَّ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ مَنِ عَقَلَ عَنْ اللَّهِ أَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، أَوْ أَرْوِيَ عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ".
یحییٰ نے کہا میں نے قاسم سے کہا: میرے اوپر بڑا شاق گزرتا ہے آپ سے کوئی سوال کیا جائے اور آپ اس سے لاعلمی کا اظہار کریں حالانکہ آپ کے والد امام وقت تھے۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ کے اور اس کے نزدیک جسے اللہ تعالیٰ کے بارے میں عقل و سمجھ ہے اس سے بھی زیادہ شاق اور شدید (سخت امر) یہ ہے کہ میں بنا علم فتویٰ دوں یا غیر ثقہ راوی سے کچھ روایت کروں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 115]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ محمد بن کثیر کی وجہ سے، لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مقدمة صحيح مسلم 16/1]، [معرفة السنن والآثار 141/1]

وضاحت: (تشریح احادیث 113 سے 115)
اس سے معلوم ہوا کہ: انہیں کسی سوال کے جواب میں «لا ادري» یا «لا اعلم» یعنی مجھے اس کا علم نہیں کہنے میں کوئی عار نہ تھا، حالانکہ وہ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اورفقیہ تھے، اس سے ان کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
نیز غیر ثقہ راوی سے حدیث روایت کرنے کی کراہت بھی معلوم ہوتی ہے۔