سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
17. باب التَّوَرُّعِ عَنِ الْجَوَابِ فِيمَا لَيْسَ فِيهِ كِتَابٌ وَلاَ سُنَّةٌ:
ایسا فتوی دینے سے احتیاط برتنے کا بیان جس کے بارے میں قرآن و حدیث سے دلیل نہ ہو
حدیث نمبر: 120
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: قَالَ الْقَاسِمُ: "إِنَّكُمْ لَتَسْأَلُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا كُنَّا نَسْأَلُ عَنْهَا، وَتُنَقِّرُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا كُنَّا نُنَقِّرُ عَنْهَا، وَتَسْأَلُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا هِيَ، وَلَوْ عَلِمْنَاهَا مَا حَلَّ لَنَا أَنْ نَكْتُمُكُمُوهَا".
عبداللہ بن عون سے مروی ہے، قاسم بن محمد نے کہا: تم لوگ ایسی باتوں کے بارے میں سوال کرتے ہو جن کے بارے میں ہم سوال نہیں کرتے تھے۔ اور تم لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں بحث کرتے ہو جن کے بارے میں ہم بحث نہیں کرتے تھے۔ تم ایسی باتیں دریافت کرتے ہو جنہیں میں نہیں جانتا کہ وہ کیا ہیں اور اگر معلوم ہوتیں تو ہمارے لئے ان کا تم سے چھپانا جائز نہیں تھا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 120]»
اس قول کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے اور سند صحیح ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 119)
اس روایت سے واضح ہوا کہ فرضی باتیں گڑھنا اور ان کے بارے میں فتویٰ دریافت کرنا درست نہیں، اگر کسی کو مسئلہ معلوم نہ ہو تو لاعلمی ظاہر کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ اٹکل پچو باتیں کرنا درست نہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معلوم ہوتے ہوئے علم کو چھپانا درست نہیں، قرآن پاک میں ایسے لوگوں کی مذمت آئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے علم کو چھپایا الله تعالیٰ اسے آگ کی لگام لگائے گا۔
« [الأحاديث الصحيحة: 1393] (نعوذ بالله من ذلك)» ۔