سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
17. باب التَّوَرُّعِ عَنِ الْجَوَابِ فِيمَا لَيْسَ فِيهِ كِتَابٌ وَلاَ سُنَّةٌ:
ایسا فتوی دینے سے احتیاط برتنے کا بیان جس کے بارے میں قرآن و حدیث سے دلیل نہ ہو
حدیث نمبر: 121
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْأَشَجِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "إِنَّهُ سَيَأْتِي نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ، فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ، فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کی (آیات) متشابہات کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں گے، تو تم ان کی احادیث سے گرفت کرنا، اس لئے کہ اہل السنن کتاب اللہ کا بہت اچھی طرح علم رکھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 121]»
سند اس روایت کی ضعیف لیکن شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [الشريعة للآجري 55، 58]، [اصول اعتقاد أهل السنة للألكائي 202]، [جامع بيان العلم 1-17] وغیرہم۔

وضاحت: (تشریح حدیث 120)
اس روایت سے اہل الحدیث کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ قرآن پاک سمجھنے کیلئے حدیث کا علم ضروری ہے، محکم و متشابہ کا علم حدیث شریف ہی سے حاصل ہوگا کیونکہ قرآن پاک کی تشریح و توضیح بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔
«﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ [النحل: 44] »، نیز فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : «إني أوتيت القرآن ومثله معه» علماء کا اتفاق ہے کہ «ومثله معه» سے مراد حدیثِ رسول ہے۔
«(على صاحبه أزكى التحيات)» ۔