صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
85. بَابُ آخِرِ مَا تَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا۔
حدیث نمبر: 4463
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ , قَالَ يُونُسُ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ , فِي رِجَالٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ صَحِيحٌ:" إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرَ"، فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِي غُشِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَى سَقْفِ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى" فَقُلْتُ: إِذًا لَا يَخْتَارُنَا وَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَدِيثُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا وَهُوَ صَحِيحٌ، قَالَتْ: فَكَانَتْ آخِرَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا:" اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب نے کئی اہل علم کی موجودگی میں خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت صحت میں فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کی روح قبض کرنے سے پہلے انہیں جنت میں ان کی قیام گاہ دکھائی گئی، پھر اختیار دیا گیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وقت آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ جب ہوش میں آئے تو آپ نے اپنی نظر گھر کی چھت کی طرف اٹھا لی اور فرمایا «اللهم الرفيق الأعلى» اے اللہ! مجھے اپنی بارگاہ میں انبیاء اور صدیقین سے ملا دے۔ میں اسی وقت سمجھ گئی کہ اب آپ ہمیں پسند نہیں کر سکتے اور مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جو آپ حالت صحت میں ہم سے بیان کیا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آخری کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا وہ یہی تھا کہ «اللهم الرفيق الأعلى» ۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5674  
´مریض کا موت کی تمنا کرنا منع ہے`
«. . . عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَيَّ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الأَعْلَى . . .»
. . . عباد بن عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا سہارا لیے ہوئے تھے (مرض الموت میں) اور فرما رہے تھے «اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى» اے اللہ! میری مغفرت فرما مجھ پر رحم کر اور مجھ کو اچھے رفیقوں (فرشتوں اور پیغمبروں) کے ساتھ ملا دے۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى: 5674]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5674 کا باب: «بَابُ تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے موت کی تمنا کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے اور اسی پر باب قائم فرمایا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب چار احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔
سیدنا انس، سیدنا خباب بن ارت اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث سے باب میں مناسبت واضح ہے، مگر چوتھی حدیث جو ام المؤمنین سے مروی ہے اس کی باب سے مناسبت مشکل ہے کیونکہ اس میں موت کی تمنا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تحت الباب آخر میں ذکر فرمایا ہے، آپ کی یہاں مراد یہ ہے کہ ایک روایت میں ہے: «ولا يدع به قبل ان يأتيه» جو اس بات کی قید ہے کہ موت کی تمنا اس وقت درست ہو گی کہ جب اس کے آثار نمایاں ہو جائیں تو اس وقت موت کی تمنا کرنا جائز ہو گی، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے «اللهم بالرفيق الأعلى» والی حدیث کو آخر میں ذکر فرمایا،

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ولا يدع به من قبل أن ياتيه وهو قيد فى الصورتيں، ومفهومه اذا حل به لا يمنع من تمنيه رضا بلقاء الله ولا من طلبه من الله لذالك وهو كذالك، ولهذه النكتة عقب البخاري حديث أبى هريرة بحديث عائشة اللهم اغفرلي وارحمني والحقني بالرفيق الأعلى إشارة إلى أن النهي مختص بالحالة التى قبل نزول الموت، فلله دره ما كان اكثر استحضاره و ايثار للأخفى على الأجل شحذاً للأذهان، وقد خفي صنيعه هذا على من جعل حديث عائشة فى الباب معارضاً الأحاديث الباب أو ناسخاً لها .»
«لا يتمنين» ہمام بن ابی ہریرہ کی روایت میں بھی نون تاکید کے ساتھ ہے اور «الموت» کے بعد یہ جملہ بھی مراد ہے، «ولا يدع به قبل ان يأتيه» یہ دونوں صورتوں میں قید ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب وہ آ جائے تو اس کی لقاء للہ کی تمنا اور نہ اللہ تعالیٰ سے اس کی طلب اس کے لیے مانع ہے، اسی نکتہ کے مدنظر اس کے بعد ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت لائے، جس میں نزع کے عالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے یہ الفاظ مذکور ہیں، «اللهم اغفر لي وارحمني والحقني بالرفيق الأعلىٰ» تو اشارہ دیا کہ نہی نزول موت سے قبل کی حالت کے ساتھ مختص ہے تو اللہ تعالیٰ بھلا کرے امام بخاری رحمہ اللہ کا کہ کس قدر حاضر دماغ اور صاحب مطالعہ ہیں، آپ اخفٰی روایت کو اجلٰی پر ترجیح دیتے ہوئے نقل کرنے کی یہ روش تشحیذ اذہان کے لیے پیدا کی ہے، ان کی یہ صنیع ان حضرات پر مخفی رہی جنہوں نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو باب کی دیگر احاد یث کے معارض یا ان کے لیے اسے ناسخ قرار دیا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے کئی باتیں ظاہر ہوئیں، آپ کا اشارہ اس طرف ہے کہ جب موت کے آثار نمایاں نہ ہوں تو حدیث «لا يتمنين» پر عمل ہو گا اور اگر جب اس کے آثار نمایاں ہو جا ئیں واضح طور پر تو حدیث ام المؤمنین عائشہ کے مطابق اس کی تمنا کرنا جائز ہو گا، لہٰذا متعارض سمجھنے والوں نے اجلت سے کام لیا، کیوں کہ ان روایات میں تطبیق واضح ہے اور یہ تعارض نہیں ہے، بلکہ بین الروایتین المختلیفین میں مخفی تطبیقی ہے، اسی بات کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ذکر فرما رہے ہیں، اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ ترجمہ کا تعلق جو ممانعت کے ساتھ ہے ان سے وہ حضرات مراد ہیں جن پر موت کے آثار نمایاں نہیں ہیں اور اگر نمایاں ہو جائیں تو موت کی تمنا جائز ہو گی، پس یہی مراد ہے باب اور ماتحت الباب احادیث کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ «فأفهم ولا تكن من الغافلين»

حدیث پر ایک اشکال اور اس کا جواب:
مذکورہ باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور حدیث ذکر فرمائی کہ «لَنْ يدْخَلَ أحَدََا عَمَلَه الْجَنَّةَ» یعنی تم میں سے کوئی بھی ہرگز اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہو گا۔ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت سے معارض ہے۔ چنانچہ امام قسطلانی رحمہ اللہ حدیث پر ایک اعتراض اس طرح سے نقل کرتے ہیں کہ:
«لن يدخل أحدأ عمله الجنة واستشكل بقوله تعالىٰ: وتلك الجنة التى أورثتموها بما كنتم تعملون» [الزخرف: 72]
یعنی حدیث کہ تم میں کوئی ہرگز اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہ جائے گا اس پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
«وتلك الجنة التى . . . . . . . الاية» لہٰذا حدیث قرآنی آیت سے معارض ہے، کیوں کہ حدیث میں عمل کی وجہ سے جنت میں جانے کی نفی ہے اور قرآنی آیت میں اثبات۔
چنانچہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے امام قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وأجيب بأن محمل الاية على أن الجنة تنال المنازل فيها بالاعمال لأن درجات الجنة متفاوتة بحسب تفاوت الاعمال وأن محل الحديث على اصل دخول الحنة .»
اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کریمہ میں جنت سے درجات اور منازل جنت مراد ہیں کہ جنت کے درجات اعمال سے متعین ہوں گے، کیوں کہ جنت کے درجات مختلف اور متفاوت ہیں، اس لیے جس کا جس قدر عمل ٹھیک ہو گا اسی کے مطابق اس کو جنت میں رتبہ نصیب ہو گا حدیث باب میں جنت سے نفس جنت میں داخلہ مراد ہے، یعنی اصل جنت میں دخول کسی عمل کی وجہ سے نہیں ہو گا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے ہو گا، البتہ مراتب اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 150   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3496  
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے وقت (یہ دعا) پڑھتے ہوئے سنا ہے: «اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى» اے اللہ! بخش دے مجھ کو اور رحم فرما مجھ پر اور مجھ کو رفیق اعلیٰ (انبیاء و ملائکہ) سے ملا دے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3496]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! بخش دے مجھ کو اور رحم فرما مجھ پر اور مجھ کو رفیق اعلیٰ (انبیاء وملائکہ) سے ملا دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3496   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4463  
4463. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے: کوئی نبی فوت نہیں ہوتا حتی کہ وہ اپنی جگہ جنت میں دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کی وفات قریب ہوئی اور آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر افاقہ ہوا تو آپ نے گھر کی چھت کی طرف نظر ج دی، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کا طلبگار ہوں۔ میں نے کہا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ وہی کلام ہے جو ہم سے تندرستی کی حالت میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: آپ کا آخری کلام جو آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا: اے اللہ! میں اپنے رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4463]
حدیث حاشیہ:
نزع کی حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ ﷺ کو سہارا دئیے ہوئے پس پشت بیٹھی ہوئی تھیں۔
پانی کا پیالہ حضور ﷺ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔
آپ پیالہ میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ پر پھیر لیتے تھے۔
چہرہ مبارک کبھی سرخ ہوتا کبھی زور پڑجاتا، زبان مبارک سے فرما رہے تھے لا إله إلا الله إن للموت سکرات اتنے میں عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ ہاتھ میں تازہ مسواک لئے ہوئے آگئے۔
آپ ﷺ نے مسواک پر نظر ڈالی تو حضرت صدیقہ ؓ نے مسواک کو اپنے دانتوں سے نرم کرکے پیش کر دیا۔
حضور ﷺ نے مسواک کی پھر ہاتھ کو بلند فرمایا اور زبان اقدس سے فرمایا ''اللهم الرفیق الأعلیٰ'' اس وقت ہاتھ لٹک گیا اور پتلی اوپر کو اٹھ گئی۔
إنا لله و إنا إلیه راجعون۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4463   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4463  
4463. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے: کوئی نبی فوت نہیں ہوتا حتی کہ وہ اپنی جگہ جنت میں دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کی وفات قریب ہوئی اور آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر افاقہ ہوا تو آپ نے گھر کی چھت کی طرف نظر ج دی، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کا طلبگار ہوں۔ میں نے کہا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ وہی کلام ہے جو ہم سے تندرستی کی حالت میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: آپ کا آخری کلام جو آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا: اے اللہ! میں اپنے رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4463]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک پہلے حضرت عائشہ ؓ کی ران پر تھا جیسا کہ اس حدیث میں ہے پھر انھوں نے آپ کے سر مبارک کو اپنے سینے اور گردن کے درمیان کر لیا جیسا کہ حدیث 4449 میں ہے لہذا ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4463