سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
20. باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ:
فتویٰ کے خطرناک ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 163
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ، قَالَ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، إِذَا وَرَدَ عَلَيْهِ الْخَصْمُ نَظَرَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ وَجَدَ فِيهِ مَا يَقْضِي بَيْنَهُمْ، قَضَى بِهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْكِتَابِ، وَعَلِمَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْأَمْرِ سُنَّةً، قَضَى بِهِ، فَإِنْ أَعْيَاهُ، خَرَجَ فَسَأَلَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ: أَتَانِي كَذَا وَكَذَا، فَهَلْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي ذَلِكَ بِقَضَاءٍ؟ فَرُبَّمَا اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّفَرُ كُلُّهُمْ يَذْكُرُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ قَضَاءً، فَيَقُولُ أَبُو بَكْرٍ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَلَى نَبِيِّنَا صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ أَعْيَاهُ أَنْ يَجِدَ فِيهِ سُنَّةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَمَعَ رُؤُوسَ النَّاسِ وَخِيَارَهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، فَإِذَا اجْتَمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَمْرٍ، قَضَى بِهِ".
میمون بن مہران سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی جھگڑا آتا تو قرآن پاک کی طرف رجوع کرتے، اور اس کا حل اس میں پاتے تو اسی کے مطابق فیصلہ کر دیتے، اور اگر وہ معاملہ کتاب الٰہی میں نہ ملتا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں کوئی علم ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے، اور اگر خود کچھ یاد نہ آتا تو نکل کھڑے ہوتے اور دیگر صحابہ کرام سے کہتے میرے پاس ایسا ایسا معاملہ آیا ہے، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ تو کبھی تو کچھ لوگ بالاجماع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے کا فیصلہ بتا دیتے۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے: اس ذات کا شکر ہے جس نے ہم میں سے ایسے لوگ پیدا کئے جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو یاد رکھتے ہیں، اور اگر ان کے پاس بھی کوئی سنت رسول نہیں ملتی تو چنیدہ بزرگ اشخاص کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے اور جس امر پر سب کا اتفاق ہوتا اسی کے مطابق فیصلہ صادر کر دیتے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن ميمون بن مهران لم يدرك أبا بكر فالإسناد منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 163]»
اس روایت کے رجال تو ثقات ہیں لیکن سند میں انقطاع ہے، کیونکہ میمون بن مہران نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ اس اثر کو بیہقی نے [آداب القاضي 114/10] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 162)
اس اثر کی سند میں گرچہ انقطاع ہے، لیکن صحابہ کرام کا طریقہ یہی تھا، جو بھی مسئلہ درپیش آتا پہلے کتاب اللہ پھر سنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے پھر آپس میں بیٹھ کر مشورہ کرتے، اسی کو اجماع کہتے ہیں اور اسی کی تعلیم قرآن پاک نے دی ہے: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ [النساء: 59] » اے مومنو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت وفرماں برداری کرو اور تم میں سے جو اختیار والے ہیں ان کی (اطاعت کرو)، پھر اگر کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف اگر تمہیں الله تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔