سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
20. باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ:
فتویٰ کے خطرناک ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 170
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ نَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ: "أَرَأَيْتَ إِنْ عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ كَيْفَ تَقْضِي؟"، قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ:"فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟"، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ؟"، قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو، قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرَهُ، ثُمَّ قَالَ:"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا تو پوچھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے تو کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو کیا کرو گے؟ عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا، فرمایا: اگر وہ مسئلہ سنت رسول اللہ میں بھی نہ ہو تو کیا کرو گے؟ عرض کیا: غور و فکر سے اجتہاد کروں گا اور کوتاہی نہ کروں گا، راوی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکایا (شاباشی کے طور پر) اور فرمایا: سب طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو لائق ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی جس سے اللہ کا رسول راضی اور خوش ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 170]»
اس حدیث کو [أبوداؤد 3592]، [ترمذي 1327]، [أحمد 230/5]، [البغوي 116/10]، [ابن أبى شيبه 292/7]، [ابن الجوزي فى العلل 1264] وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [آداب القاضي 114/10]، [الفقيه 188/1]، [جامع بيان العلم 1592] و [العلل للدارقطني 1001] لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے [الأحاديث الضعيفة 273/2] میں اس کو ذکر کیا ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 168 سے 170)
گرچہ یہ حدیث سنداً صحیح نہیں ہے، لیکن اسلاف کرام کا عمل اسی طرح کا رہا ہے، جیسا کہ پچھلے آثار اور آنے والے نصوص سے ثابت ہوتا ہے، آگے اس کا شاہد بھی آرہا ہے۔
واللہ اعلم۔