صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
88. بَابُ بَعْثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو مرض الموت میں ایک مہم پر روانہ کرنا۔
حدیث نمبر: 4469
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بَعَثَ بَعْثًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطَعَنَ النَّاسُ فِي إِمَارَتِهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنایا۔ بعض لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا اور فرمایا کہ اگر آج تم اس کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو تم اس سے پہلے اس کے والد کی امارت پر اسی طرح اعتراض کر چکے ہو اور اللہ کی قسم! اس کے والد (زید رضی اللہ عنہ) امارت کے بہت لائق تھے اور مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے اور یہ (یعنی اسامہ رضی اللہ عنہ) بھی ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3816  
´زید بن حارثہ رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا تو لوگ ان کی امارت پر تنقید کرنے لگے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ان کی امارت میں طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے ان کے باپ کی امارت پر بھی طعن کر چکے ہو ۱؎، قسم اللہ کی! وہ (زید) امارت کے مستحق تھے اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ان کے بعد یہ بھی (اسامہ) لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3816]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ کا اشارہ غزوہ موتہ میں زید کو امیر بنانے کے واقعے کی طرف ہے،
اس حدیث سے دونوں باپ بیٹوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3816   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4469  
4469. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تیار کیا اوراس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر کیا۔ کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر تم اس کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم! وہ امارت کے لائق اوراہل تھے اورمجھے لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور بلاشبہ ان کے بعد یہ (اسامہ) مجھے لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4469]
حدیث حاشیہ:
باوجود یکہ اس لشکر میں بڑے بڑے مہاجرین جیسے ابو بکر اور عمر ؓ شریک تھے مگر آپ نے اسامہ ؓ کو سردار لشکر بنایا۔
اس سے یہ غرض تھی کہ ان کی دلجوئی ہو اور وہ اپنے والد زید بن حارثہ ؓ کے قاتلوں سے خوب دل کھول کر لڑیں۔
اس لشکر کی تیاری کا آنحضرت ﷺ کو بڑا خیال تھا۔
مرض موت میں بھی کئی بار فرمایا کہ اسامہ ؓ کا لشکر روانہ کرو مگر اسامہ ؓ شہر سے باہرنکلے ہی تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی اور اسامہ ؓ مع لشکر واپس آگئے۔
بعد میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنی خلافت میں اس لشکر کو روانہ کیا اور اسامہ ؓ گئے۔
انہوں نے اپنے باپ کے قاتل کو قتل کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4469   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4469  
4469. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر تیار کیا اوراس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر کیا۔ کچھ لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر تم اس کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو اس سے پہلے تم نے ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اللہ کی قسم! وہ امارت کے لائق اوراہل تھے اورمجھے لوگوں سے زیادہ عزیز تھے اور بلاشبہ ان کے بعد یہ (اسامہ) مجھے لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4469]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو رسول اللہ ﷺ کی بیماری اور آپ کی وفات کے حالات میں بیان کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے وفات سے دو دن پہلے ہفتے کے روز لشکر کو تیار کیا تھا جبکہ آپ کی وفات پیر کے دن ہوئی آپ نے حضرت اسامہ ؓ کو امیر لشکر بنا كر شام کی طرف روانہ فرمایا۔
چونکہ حضرت اسامہ ؓ کے والد گرامی حضرت زید ؓ اسی سر زمین میں شہید ہوئے تھے۔
اس لیے آپ نے حضرت اسامہ ؓ کی دلجوئی فرمائی تاکہ وہ اپنے والد کے قاتلوں سے دل کھول کر لڑیں۔

دراصل رومی حکومت کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے زندہ رہنے کا حق تسلیم کرے۔
اگر وہاں کوئی انسان مسلمان ہو جاتا تو اس کی جان محفوظ نہ ہوتی۔
اس حکومت کا غرور توڑنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے صفر 11 ہجری میں ایک بڑے لشکر کی تیاری شروع فرمائی اور حضرت اسامہ ؓ کو امیر لشکر مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ بلقاء اور روم کا علاقہ سواروں کے ذریعے سے روند آؤ۔
اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کو خوف زدہ کر کے ان کی حدود پر واقع عرب قبائل کا اعتماد بحال کیا جائے اور کسی کو یہ تصور کرنے کی گنجائش نہ دی جائے۔
کہ رومیوں کے تشدد پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔

بہر حال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضرت اسامہ ؓ کے ارد گرد جمع ہو کر ان کے لشکر میں شامل ہو گئے اور لشکر روانہ ہو کر مدینہ طیبہ سے تین میل دور مقام جرف میں خیمہ زن بھی ہو گیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے متعلق تشویش ناک خبروں کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا بلکہ اللہ کے فیصلے کے انتظار میں وہیں ٹھہرنے پر مجبور ہو گیا اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ لشکر حضرت ابو بکر ؓ کے دور خلافت کی پہلی مہم قرار پائے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب ابو بکر ؓ کی بیعت کی گئی تو انھوں نے حضرت اسامہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ لشکر لے کر چلے جائیں چنانچہ ان کی قیادت میں لشکر روانہ ہوا۔
وہ بیس روز چلتے رہے آخر کار رومیوں پر حملہ کیا، جس نے بھی وہاں گردن اٹھائی اسے قتل کر دیا گیا۔
ان کے مکانات اور کھیتیاں جلا دی گئیں۔
حضرت اسامہ ؓ اپنے والد حضرت زید ؓ کے سبحہ نامی گھوڑے پر سوار تھے اور غارہ میں اپنے والد کے قاتل کو جہنم واصل کیا اور مدینہ منورہ واپس آنے تک اللہ کے فضل سے ایک مسلمان بھی شہید نہ ہوا، حضرت ابو بکر ؓ نے مہاجرین اور اہل مدینہ کے ہمراہ ان کا مدینہ طیبہ سے باہر استقبال کیا۔
(عمدة القاري: 406/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4469