سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
22. باب تَغَيُّرِ الزَّمَانِ وَمَا يَحْدُثُ فِيهِ:
زمانے کے تغیر اور اس میں رونما ہونے والے حادثات کا بیان
حدیث نمبر: 204
أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ:"شَهِدْتُ شُرَيْحًا، وَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ مُرَادٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا أُمَيَّةَ، مَا دِيَةُ الْأَصَابِعِ؟، قَالَ: عَشْرٌ عَشْرٌ، قَالَ: يَا سُبْحَانَ اللَّهِ، أَسَوَاءٌ هَاتَانِ؟ جَمَعَ بَيْنَ الْخِنْصِرِ وَالْإِبْهَامِ، فَقَالَ شُرَيْحٌ: يَا سُبْحَانَ اللَّهِ، أَسَوَاءٌ أُذُنُكَ وَيَدُكَ؟ فَإِنَّ الْأُذُنَ يُوَارِيهَا الشَّعْرُ، وَالْكُمَّةُ وَالْعِمَامَةُ فِيهَا نِصْفُ الدِّيَةِ، وَفِي الْيَدِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَيْحَكَ: إِنَّ السُّنَّةَ سَبَقَتْ قِيَاسَكُمْ فَاتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَضِلَّ مَا أَخَذْتَ بِالْأَثَرِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقَالَ لِي الشَّعْبِيُّ: يَا هُذَلِيُّ، لَوْ أَنَّ أَحْنَفَكُمْ قُتِلَ وَهَذَا الصَّبِيُّ فِي مَهْدِهِ أَكَانَ دِيَتُهُمَا سَوَاءً؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَيْنَ الْقِيَاسُ؟".
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: میں (قاضی) شریح رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا، ان کے پاس (قبیلہ) مراد کا ایک شخص آیا اور پوچھا: ابواميۃ! انگلیوں کی دیت کتنی ہے؟ جواب دیا: ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ، اس نے انگوٹھا اور چھوٹی انگلی کو ملایا اور کہا: سبحان اللہ! یہ دونوں برابر ہیں؟ قاضی شریح رحمہ اللہ نے کہا: سبحان اللہ! کیا تمہارا کان اور ہاتھ برابر ہیں؟ کان تو بال یا عمامے سے ڈھک جاتا ہے تو اس میں (آدمی کی) نصف دیت ہے، اور ہاتھ میں (ایسا نہیں) اس میں بھی نصف دیت ہے۔ تمہارا برا ہو، سنت تمہارے قیاس پر مقدم ہے، سو سنت کی اتباع کرو بدعت نہ ایجاد کرو، اور جب تک تم حدیث کو پکڑے رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ابوبکر الہذلی (راوی) نے کہا: امام شعبی رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: اے ہذلی! اگر تمہارا کوئی لولا لنگڑا آدمی قتل کر دیا جائے، یا گہوارے میں (دودھ پیتا) بچہ مار ڈالا جائے تو کیا دونوں کی دیت برابر نہ ہو گی؟ میں نے کہا: جی ہاں! دونوں کی دیت برابر ہے، کہا: پھر قیاس کہاں گیا؟

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده أبو بكر الهذلي وهو متروك، [مكتبه الشامله نمبر: 204]»
اس روایت کی سند میں ابوبکر الہذلی متروک ہیں۔ اس اثر کو عبدالرزاق نے مصنف میں بہت مختصر ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [المصنف 17703] و [جامع بيان العلم 2024]

وضاحت: (تشریح حدیث 203)
اگرچہ اس قول کی نسبت قاضی شریح کی طرف صحیح نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ حدود الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں، قیاس کی ان میں گنجائش ہی نہیں۔
«﴿تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا﴾ [البقرة: 229] »