سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
23. باب في كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ:
رائے اور قیاس پر عمل کرنے سے ناپسندیدگی کا بیان
حدیث نمبر: 210
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَإِذَا خَرَجَ، مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَعْدُ؟، قُلْنَا: لَا، فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا، قَالَ: فَمَا هُوَ؟، فَقَالَ: إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ، قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ، وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصَا، فَيَقُولُ: كَبِّرُوا مِائَةً، فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً، فَيَقُولُ: هَلِّلُوا مِائَةً، فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً، وَيَقُولُ: سَبِّحُوا مِائَةً، فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً، قَالَ: فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ؟، قَالَ: مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ أَوِ انْتِظَارَ أَمْرِكَ، قَالَ: أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ، وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ؟ ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ؟، قَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًا نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ، وَالتَّهْلِيلَ، وَالتَّسْبِيحَ، قَالَ:"فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ، وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ! هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ، أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ"، قَالُوا: وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ، قَالَ:"وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ"، ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ: رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ.
عمرو بن یحییٰ نے خبر دی کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ظہر کی نماز سے پہلے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے، جب وہ (گھر سے) نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوتے، ایک دن ہمارے پاس سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے اور پوچھا: کیا ابوعبدالرحمن (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت) باہر نکلے؟ ہم نے کہا: نہیں ابھی تک تو نہیں نکلے، تو وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، لہٰذا جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ باہر آئے تو ہم سب ان کے لئے کھڑے ہو گئے، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں نے ابھی ابھی مسجد میں ایسی بات دیکھی ہے جو مجھے ناگوار گزری ہے حالانکہ الحمد للہ وہ بہتر اور اچھی ہی ہو گی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کیا بات ہے؟ کہا: آپ وہاں پہنچ کر خود دیکھ لیں گے، پھر کہا: میں نے وہاں کچھ لوگوں کی جماعت دیکھی جو حلقوں کی صورت میں بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے ہیں، ہر حلقے میں ایک آدمی ہے اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں، وہ آدمی ان سے کہتا ہے: سو بار اللہ اکبر کہو تو وہ (ان کنکریوں کو گن کر) سو بار اللہ اکبر کہتے ہیں، پھر وہ شخص کہتا ہے: سو بار لا إلٰہ إلا اللہ کہو تو (اس طرح) وہ سو بار لا إلٰہ إلا اللہ کہتے ہیں، وہ کہتا ہے: سو بار سبحان الله کہو تو وہ اس طرح سو بار سبحان اللہ کہتے ہیں۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم نے ان سے کیا کہا؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ کی رائے یا حکم کے انتظار میں ان سے کچھ نہیں کہا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے انہیں یہ حکم کیوں نہ دیا کہ ان کنکریوں سے وہ اپنے گناہ شمار کریں اور تم نے انہیں اس بات کی ضمانت دیدی کہ ان کی نیکیوں میں سے کچھ برباد نہ ہوا۔ پھر وہ چل پڑے، ہم بھی ان کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس آ کر وہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میں تمہیں کیا کرتے دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! یہ کنکریاں ہیں ہم ان کے ذریعے تکبیر تہلیل اور تسبیح کی تعداد گنتے ہیں۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنی برائیاں گنو، تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہو گا، اے امت محمد! تمہاری خرابی ہوئی، کتنی جلدی تم ہلاکت و بربادی میں پڑ گئے، ابھی تو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ موجود ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی میلے نہیں ہوئے، نہ آپ کے برتن ٹوٹے ہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کیا تم ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت یافتہ ملت کے راستے پر ہو یا گمراہی و ضلالت کا دروازہ کھول رہے ہو۔ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہمارا ارادہ صرف نیکی و بھلائی کا ہی تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسی بھلائی کے متلاشی کبھی بھلائی و نیکی حاصل نہ کر سکیں گے، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ایک جماعت ہو گی جو قرآن پڑھے گی تو وہ اس کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قسم اللہ کی ہو سکتا ہے ایسے اکثر لوگ تم ہی میں سے ہوں گے۔ پھر آپ ان کے پاس سے ہٹ گئے، عمرو بن سلمہ نے کہا: ہم نے ان حلقات کے عام آدمیوں کو دیکھا جو واقعہ نہروان کے دن خوارج کے ساتھ ہمیں پر تیر برسا رہے تھے (یعنی وہی لوگ خوارج کا ساتھ دے رہے تھے)۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 210]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبي شيبه 19736]، [معجم الطبراني الكبير 8636]، [مجمع الزوائد 863]، نیز [ترمذي 2189] اور [ابن ماجه 168] نے آخر کا پیراگراف اختصار سے ذکر کیا ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 208 سے 210)
اس طویل اثر و حدیث میں بدعت کی شدید مذمت اور کنکریوں یا تسبیح کے دانوں پر تسبیح و تہلیل اور تکبیر پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار ہے، اور یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا شدید رد عمل ہے۔
آج ان کی بات کو دلیل بنانے والے ہی ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہاتھوں میں تسبیح لئے گھومتے پھرتے ہیں۔
اس میں صحابہ کرام کا ایک دوسرے کے ساتھ احترام کرنا بھی ثابت ہوتا ہے جو باعثِ اتباع و عبرت ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی کہ ایک جماعت ایسی پیدا ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن بے عمل ہوگی، قرآن و حدیث کی اتباع چھوڑ کر اپنے نفس اور شیطان کی اتباع کرے گی اور دینی اُمور میں اپنی من مانی کرے گی، اور خوارج کی صورت میں یہ پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔