سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
23. باب في كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ:
رائے اور قیاس پر عمل کرنے سے ناپسندیدگی کا بیان
حدیث نمبر: 216
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو الْوَلِيدِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ حَيَّةَ بِنْتِ أَبِي حَيَّةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَجُلٌ بِالظَّهِيرَةِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتَ؟، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي فِي بُغَاءٍ لَنَا، فَانْطَلَقَ صَاحِبِي يَبْغِي، وَدَخَلْتُ أَنَا أَسْتَظِلُّ بِالظِّلِّ، وَأَشْرَبُ مِنْ الشَّرَابِ، فَقُمْتُ إِلَى لُبَيْنَةٍ حَامِضَةٍ، ورُبَّمَا قَالَتْ: فَقُمْتُ إِلَى ضَيْحَةٍ حَامِضَةٍ، فَسَقَيْتُهُ مِنْهَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبْتُ، قَالَتْ: وَتَوَسَّمْتُهُ فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ مَنْ أَنْتَ؟، فَقَالَ أَنَا أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: أَنْتَ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي سَمِعْتُ بِهِ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَذَكَرْتُ غَزْوَنَا خَثْعَمًا، وَغَزْوَةَ بَعْضِنَا بَعْضًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْأُلْفَةِ وَأَطْنَابِ الْفَسَاطِيطِ وَشَبَّكَ ابْنُ عَوْنٍ أَصَابِعَهُ، وَوَصَفَهُ لَنَا مُعَاذٌ، وَشَبَّكَ أَحْمَدُ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، حَتَّى مَتَى تَرَى أَمْرَ النَّاسِ هَذَا؟، قَالَ:"مَا اسْتَقَامَتْ الْأَئِمَّةُ"، قُلْتُ: مَا الْأَئِمَّةُ؟، قَالَ:"أَمَا رَأَيْتِ السَّيِّدَ يَكُونُ فِي الْحِوَاءِ فَيَتَّبِعُونَهُ، وَيُطِيعُونَهُ؟ فَمَا اسْتَقَامَ أُولَئِكَ".
حیۃ بنت ابی حیۃ نے کہا: دوپہر کے وقت ہمارے پاس ایک آدمی آیا، میں نے کہا: اللہ کے بندے! تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو اس نے کہا: میں اور میرا ساتھی بھٹکے ہوئے کی تلاش میں آئے تھے، میرا ساتھی تلاش میں نکل گیا اور میں سائے اور پانی کی تلاش میں یہاں آ گیا، حیۃ نے کہا: میں مٹی کا مٹھا لائی اور اسے پلایا، اس نے پیا اور میں نے بھی پیا، میں نے تعارف کے لئے پوچھا: اللہ کے بندے! تم کون ہو؟ تو اس نے کہا: میں ابوبکر ہوں، میں نے کہا: وہی ابوبکر جن کے بارے میں میں نے سنا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں وہی۔ حیہ نے کہا: میں نے خثعم سے اور جاہلیت میں بعض کا بعض کے ساتھ غزوے کا ذکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے جو الفت و محبت پیدا کی اور ان خیموں کا ذکر کیا۔ عبداللہ بن عون نے اپنی انگلیاں انگلیوں میں داخل کیں، معاذ بن معاذ نے بھی ایسا ہی کر کے بتایا، احمد اور ان کے استاد احمد بن عبداللہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ میں نے کہا: اے عبدالله! کب تک تمہارا خیال ہے کہ ایسا ہی معاملہ چلتا رہے گا؟ کہا: جب تک ائمہ یا حکام سیدھے (راهِ مستقیم) پر رہیں گے۔ میں نے کہا: ائمہ سے مراد کیا ہے؟ کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ سید (مالک) جب گھر میں ہوتا ہے تو لوگ اس کی پیروی و اطاعت بجا لاتے ہیں، پس جب تک وہ راہ مستقیم پر رہیں گے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 216]»
اس روایت کی سند حسن ہے، اور صرف امام دارمی کی روایت ہے۔