سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
45. باب مَنْ كَرِهَ الشُّهْرَةَ وَالْمَعْرِفَةَ:
جس نے شہرت اور خاص پہچان کو ناپسند کیا اس کا بیان
حدیث نمبر: 556
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ جَسَدِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَا وَضَعَهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ مَاذَا عَمِلَ فِيهِ".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بھی بندے کے قدم نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے، اپنی عمر کس میں گنوائی؟ اپنے جسم کو کس میں لگایا؟ اپنا مال کیسے کمایا اور کہاں اس کو خرچ کیا؟ اور اپنے علم پر عمل کتنا کیا؟۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف وهوموقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 556]»
اس قول کی سند ضعیف ہے اور موقوف بھی۔ یہ روایت [كشف الاستار 3438]، [الاقتضاء 3] میں موجود ہے، لیکن سند ضعیف ہے، لیکن [الاقتضاء 2]، [تاريخ بغداد 441/11]، [شعب الايمان 1785] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی ہم معنی روایت صحیح سند سے گزر چکی ہے، اس لئے معنی کے اعتبار سے یہ روایت صحیح اور موصول ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 553 سے 556)
ان روایات سے قیامت کے دن حساب کتاب اور پوچھ گچھ ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ علم، عمر، جسم اور مال کے بارے میں حساب ہوگا، اس لئے ہر بندے کو ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے، زندگی اچھے کاموں میں گزر رہی ہے یا نہیں؟ جسم و صحت کو اچھے کام میں لگایا یا نہیں؟ اور مال کہاں سے حاصل کیا، کہاں خرچ کیا؟ اچھے کاموں میں یا لہو و لعب اور منکرات و خواہش میں؟ الله تعالیٰ سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق بخشے۔
آمین۔