سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
47. باب الرِّحْلَةِ في طَلَبِ الْعِلْمِ وَاحْتِمَالِ الْعَنَاءِ فِيهِ:
علم کی طلب میں سفر کرنا اور اس میں مشقت برداشت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 585
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ آلِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: "طَلَبْتُ الْعِلْمَ فَلَمْ أَجِدْهُ أَكْثَرَ مِنْهُ فِي الْأَنْصَارِ، فَكُنْتُ آتِي الرَّجُلَ فَأَسْأَلُ عَنْهُ، فَيُقَالُ لِي: نَائِمٌ فَأَتَوَسَّدُ رِدَائِي، ثُمَّ أَضْطَجِعُ حَتَّى يَخْرُجَ إِلَى الظُّهْرِ، فَيَقُولُ: مَتَى كُنْتَ هَا هُنَا يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ؟، فَأَقُولُ: مُنْذُ زَمَنٍ طَوِيلٍ، فَيَقُولُ: بِئْسَ مَا صَنَعْتَ، هَلَّا أَعْلَمْتَنِي؟، فَأَقُولُ: أَرَدْتُ أَنْ تَخْرُجَ إِلَيَّ وَقَدْ قَضَيْتَ حَاجَتَكَ".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے علم تلاش کیا تو انصار کے پاس سے زیادہ کہیں نہیں پایا، لہٰذا میں آدمی کے پاس جاتا اور اس کے بارے میں پوچھتا، مجھ سے کہا جاتا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں، میں اپنی چادر کا تکیہ بناتا اور پھر لیٹ جاتا، جب وہ ظہر کے وقت باہر آتے تو فرماتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے! تم کب سے یہاں ہو؟ میں عرض کرتا: کافی دیر سے بیٹھا ہوں، فرماتے: یہ تم اچھا نہیں کرتے، تم نے مجھے (اپنی آمد کے بارے میں) بتا کیوں نہیں دیا؟ میں عرض کرتا: میں نے چاہا کہ آپ اپنی ضروریات پوری کر کے باہر نکلیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده الحجاج وهو: ابن أرطاة وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 585]»
اس روایت کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہیں، ابن عبدالبر نے معلقاً [جامع بيان العلم 592] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 221] سند منقطع ہے لیکن یہ اثر صحیح ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 584)
اس روایت سے اہلِ علم کا ادب و احترام اور طلبِ علم کے لئے نکلنا ثابت ہوا۔