سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
47. باب الرِّحْلَةِ في طَلَبِ الْعِلْمِ وَاحْتِمَالِ الْعَنَاءِ فِيهِ:
علم کی طلب میں سفر کرنا اور اس میں مشقت برداشت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 589
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ لِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا فُلَانُ، هَلُمَّ فَلْنَسْأَلْ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُمْ الْيَوْمَ كَثِيرٌ، فَقَالَ: وَا عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَتَرَى النَّاسَ يَحْتَاجُونَ إِلَيْكَ وَفِي النَّاسِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَى؟ فَتَرَكَ ذَلِكَ، وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْمَسْأَلَةِ، فَإِنْ كَانَ لَيَبْلُغُنِي الْحَدِيثُ عَنْ الرَّجُلِ فَآتِيهِ، وَهُوَ قَائِلٌ، فَأَتَوَسَّدُ رِدَائِي عَلَى بَابِهِ، فَتَسْفِي الرِّيحُ عَلَى وَجْهِي التُّرَابَ، فَيَخْرُجُ، فَيَرَانِي، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ، مَا جَاءَ بِكَ؟ أَلَا أَرْسَلْتَ إِلَيَّ فَآتِيَكَ؟، فَأَقُولُ: لَا، أَنَا أَحَقُّ أَنْ آتِيَكَ، فَأَسْأَلُهُ عَنْ الْحَدِيثِ، قَالَ: فَبَقِيَ الرَّجُلُ حَتَّى رَآنِي وَقَدْ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيَّ، فَقَالَ: كَانَ هَذَا الْفَتَى أَعْقَلَ مِنِّي".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میں نے انصار کے ایک آدمی سے کہا: اے بھائی! آؤ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے استفسار کریں، آج وہ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: عباس کے بیٹے! کیسی عجیب بات کہتے ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ لوگ اتنے سارے اصحاب رسول کی موجودگی میں تمہارے محتاج ہوں گے؟ پس انہوں نے ترک کیا اور میں نے سوال کرنے کی طرف توجہ کی، پس جب مجھے کوئی حدیث پہنچتی تو میں ان (انصاری بھائی) کے پاس جاتا، وہ قیلولہ کرتے ہوتے، ان کے دروازے پر چادر کا تکیہ لگا لیتا، ہوا سے میرے چہرے پر غبار چھا جاتا، وہ باہر آتے مجھے دیکھتے تو فرماتے: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے! کیوں آئے؟ کسی کو بھیج دیتے، میں خود حاضر ہو جاتا، میں عرض کرتا: نہیں، میں ہی زیادہ محتاج ہوں کہ آپ کے پاس آؤں، پھر میں ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھتا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: وہ (انصاری صحابی) لمبی مدت تک حیات رہے یہاں تک کہ مجھے دیکھا لوگ میرے پاس جمع ہوتے ہیں، فرمایا: یہ نوجوان مجھ سے زیادہ عقل مند تھا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 590]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة للفسوي 542/1]، [المستدرك 106/1]، [الجامع لأخلاق الراوي 215]۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (585، 586)۔