صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
24. بَابُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔
حدیث نمبر: 4504
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا يَحْيَى , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ الْفَرِيضَةَ وَتُرِكَ عَاشُورَاءُ، فَكَانَ مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزہ (کی فرضیت) باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 753  
´یوم عاشوراء کا روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 753]
اردو حاشہ: 1 ؎:
مؤلف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 753   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4504  
4504. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دور جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ بھی (ملتِ ابراہیم کی پیروی میں) اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی اس دن کے روزے کو برقرار رکھا بلکہ اپنے صحابہ کو اس دن روزہ رکھنے کا پابند کیا۔ پھر جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کی فرضیت ترک کر دی گئی، پھر جس کا دل چاہتا روزہ رکھتا اور جس کا جی نہ چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4504]
حدیث حاشیہ:
یوم عاشوراء کے روزہ کی فضیلت اور استحباب اب بھی باقی ہے۔
پہلے اس کا وجوب تھا جو رمضان کے روزوں کی فرضیت سے منسوخ ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4504   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4504  
4504. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دور جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ بھی (ملتِ ابراہیم کی پیروی میں) اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی اس دن کے روزے کو برقرار رکھا بلکہ اپنے صحابہ کو اس دن روزہ رکھنے کا پابند کیا۔ پھر جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کی فرضیت ترک کر دی گئی، پھر جس کا دل چاہتا روزہ رکھتا اور جس کا جی نہ چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4504]
حدیث حاشیہ:

عنوان اور مذکورہ احادیث میں مطابقت اس طرح ہے کہ ان تمام احادیث میں رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر ہے، نیز عاشوراء کا روزہ پہلے فرض تھا، اب اس کا استحباب باقی ہے۔
ایک روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیان ان الفاظ میں مروی ہے کہ ہم پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو ہمیں عاشوراء کے متعلق نہ حکم دیا گیا اور نہ اس سے منع کیا گیا، البتہ ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
(فتح الباري: 224/8)

امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، رمضان کے روزوں کی فرضیت صرف اس امت کے لیے ہے۔
اگررمضان کے روزے پہلی امتوں پر فرض ہوتے تو آپ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کے بجائے رمضان کے روزے رکھتے۔
(فتح الباري: 224/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4504