سنن دارمي
مقدمه -- مقدمہ
56. باب في إِعْظَامِ الْعِلْمِ:
علم کی عظمت کا بیان
حدیث نمبر: 671
أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقَسْمَلِيِّ، أَخْبَرَنَا زَيْدٌ الْعَمِّيُّ، عَنْ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ أَنَّهُ، قَالَ: "يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، اعْمَلْ بِعِلْمِكَ، وَأَعْطِ فَضْلَ مَالِكَ، وَاحْبِسْ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِكَ إِلَّا بِشَيْءٍ مِنْ الْحَدِيثِ يَنْفَعُكَ عِنْدَ رَبِّكَ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ إِنَّ الَّذِي عَلِمْتَ ثُمَّ لَمْ تَعْمَلْ بِهِ قَاطِعٌ حُجَّتَكَ وَمَعْذِرَتَكَ عِنْدِ رَبِّكَ إِذَا لَقِيتَهُ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، إِنَّ الَّذِي أُمِرْتَ بِهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ لَيَشْغَلُكَ عَمَّا نُهِيتَ عَنْهُ مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، لَا تَكُونَنَّ قَوِيًّا فِي عَمَلِ غَيْرِكَ، ضَعِيفًا فِي عَمَلِ نَفْسِكَ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، لَا يَشْغَلَنَّكَ الَّذِي لِغَيْرِكَ عَنْ الَّذِي لَكَ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، جَالِسْ الْعُلَمَاءَ، وَزَاحِمْهُمْ وَاسْتَمِعْ مِنْهُمْ، وَدَعْ مُنَازَعَتَهُمْ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، عَظِّمْ الْعُلَمَاءَ لِعِلْمِهِمْ، وَصَغِّرْ الْجُهَّالَ لِجَهْلِهِمْ، وَلَا تُبَاعِدْهُمْ، وَقَرِّبْهُمْ وَعَلِّمْهُمْ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، لَا تُحَدِّثْ بِحَدِيثٍ فِي مَجْلِسٍ حَتَّى تَفْهَمَهُ، وَلَا تُجِبْ امْرَأً فِي قَوْلِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مَا قَالَ لَكَ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، لَا تَغْتَرَّ بِاللَّهِ، وَلَا تَغْتَرَّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّ الْغِرَّةَ بِاللَّهِ تَرْكُ أَمْرِهِ، وَالْغِرَّةَ بِالنَّاسِ اتِّبَاعُ أَهْوَائِهِمْ، وَاحْذَرْ مِنْ اللَّهِ مَا حَذَّرَكَ مِنْ نَفْسِهِ، وَاحْذَرْ مِنْ النَّاسِ فِتْنَتَهُمْ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، إِنَّهُ لَا يَكْمُلُ ضَوْءُ النَّهَارِ إِلَّا بِالشَّمْسِ، كَذَلِكَ لَا تَكْمُلُ الْحِكْمَةُ إِلَّا بِطَاعَةِ اللَّهِ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، إِنَّهُ لَا يَصْلُحُ الزَّرْعُ إِلَّا بِالْمَاءِ وَالتُّرَابِ، كَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ الْإِيمَانُ إِلَّا بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، كُلُّ مُسَافِرٍ مُتَزَوِّدٌ، وَسَيَجِدُ إِذَا احْتَاجَ إِلَى زَادِهِ مَا تَزَوَّدَ، وَكَذَلِكَ سَيَجِدُ كُلُّ عَامِلٍ إِذَا احْتَاجَ إِلَى عَمَلِهِ فِي الْآخِرَةِ مَا عَمِلَ فِي الدُّنْيَا، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، إِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَحُضَّكَ عَلَى عِبَادَتِهِ، فَاعْلَمْ أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يُبَيِّنَ لَكَ كَرَامَتَكَ عَلَيْهِ، فَلَا تَحَوَّلَنَّ إِلَى غَيْرِهِ، فَتَرْجِعَ مِنْ كَرَامَتِهِ إِلَى هَوَانِهِ، يَا صَاحِبَ الْعِلْمِ، إِنَّكَ إِنْ تَنْقُلْ الْحِجَارَةَ وَالْحَدِيدَ أَهْوَنُ عَلَيْكَ مِنْ أَنْ تُحَدِّثَ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَكَ، وَمَثَلُ الَّذِي يُحَدِّثُ مَنْ لَا يَعْقِلُ حَدِيثَهُ كَمَثَلِ الَّذِي يُنَادِي الْمَيِّتَ وَيَضَعُ الْمَائِدَةَ لِأَهْلِ الْقُبُورِ".
زید العمی نے بعض فقہاء سے خبر دی کہ انہوں نے کہا: اے صاحب علم! اپنے علم کے مطابق عمل کر، اور اپنے زائد مال کا عطیہ دے، اور زیادہ باتوں سے پرہیز کر سوائے اس بات کے جو اللہ کے پاس تمہیں نفع دے۔ اے صاحب علم! تم نے جو علم حاصل کیا پھر اس پر عمل نہیں کیا تو جب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے تو یہ (بے عملی) تمہارے اوپر حجت اور معذرت کو ختم کرنے والی ہو گی۔ اے صاحب علم! تم کو اللہ کی اطاعت کا جو حکم دیا گیا ہے تو وہ اس لئے کہ تم کو اللہ کی نافرمانی میں جس چیز سے روکا گیا ہے اس سے دور رہو۔ اے علم دانو! دوسرے کام میں قوی اور اپنے کام میں ضعیف نہ ہونا۔ اے صاحب علم! جو چیز تمہارے علاوہ کسی اور کے لئے ہے، وہ تمہیں اس چیز سے مشغول نہ کر دے جو خود تمہارے لئے ہے۔ اے صاحب علم! علماء کی تعظیم کرو، ان کے پاس بھیڑ لگاؤ اور ان سے سنو، اور ان سے لڑائی جھگڑا نہ کرو۔ اے صاحب علم! علماء کے علم کی وجہ سے ان کی عزت و تعظیم کرو (بڑا سمجھو) اور جاہلوں کو ان کے جہل کی وجہ سے چھوٹا جانو لیکن انہیں دور نہ بھگاؤ بلکہ قریب کرو اور انہیں علم سکھاؤ۔ اے علم داں! کسی مجلس میں ایسی حدیث بیان نہ کرو جس کو تم سمجھتے نہیں، اور نہ کسی آدمی کو جواب دو اس وقت تک کہ یہ نہ سمجھ لو کہ اس نے تم سے کیا پوچھا ہے۔
اے علم والے! اللہ کو دھوکہ نہ دے، اور نہ لوگوں کو دھوکے میں ڈال، الله کو دھوکہ دینا اس کے حکم سے روگردانی کرنا ہے، اورلوگوں کو دھوکے میں ڈالنا ان کی خواہشات کی پیروی کرنا ہے، اور اللہ سے ڈرو، جس میں اللہ نے اپنے سے ڈرنے کا حکم دیا ہے، اور لوگوں سے ڈرو کہ فتنوں میں نہ ڈال دیں۔
اے علم والے! بیشک جس طرح دن کی روشنی صرف سورج سے کامل ہوتی ہے، اسی طرح حکمت اللہ کی اطاعت سے کامل ہوتی ہے۔
اے صاحب علم! جس طرح کھیتی پانی و مٹی سے صحیح رہتی ہے، اسی طرح ایمان علم و عمل سے ٹھیک رہتا ہے۔
اے صاحب علم! جس طرح ہر مسافر زادِ راہ اکٹھا کرتا ہے اور جب ضرورت ہوتی ہے زادِ راہ پا لیتا ہے۔ اسی طرح ہر عامل آخرت میں اپنے اس عمل کا محتاج ہو گا جو اس نے دنیا میں کیا۔
اے صاحب علم! جب اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی عبادت پر ابھارے تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ اپنے پاس تمہاری قدر و منزلت بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، پس تم اس کے سوا کسی اور کی طرف نہ مڑ جانا کہ تم اس کی قدر و منزلت سے ذلت و رسوائی کی طرف پلٹ جاؤ۔
اے صاحب علم! اگر تم پتھر اور لوہا منتقل کرو تو یہ آسان ہے اس کے بہ نسبت کہ تم ایسے شخص سے حدیث بیان کرو جو تمہاری بات سمجھتا ہی نہیں ہے، اور اس شخص کی مثال جو بے عقل سے اپنی حدیث بیان کرے ایسی ہے جیسے کوئی میت کو پکارے اور مردوں کے لئے دستر خوان لگائے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 674]»
اس روایت کی سند بہت ضعیف ہے۔ دیگر کسی کتاب میں بھی نہیں مل سکی۔ مجرد اقوال ہیں، جن میں نصیحت ہے اور اس طرح کے مختلف اقوال و آثار مختلف ابواب میں گذر چکے ہیں۔