صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
30. بَابُ قَوْلِهِ: {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر اور ”ان کافروں سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ (شرک) باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ ہی کے لیے رہ جائے، سو اگر وہ باز آ جائیں تو سختی کسی پر بھی نہیں بجز (اپنے حق میں) ظلم کرنے والوں کے“۔
حدیث نمبر: 4513
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَتَاهُ رَجُلَانِ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ, فَقَالَا: إِنَّ النَّاسَ صَنَعُوا وَأَنْتَ ابْنُ عُمَرَ وَصَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَخْرُجَ، فَقَالَ:" يَمْنَعُنِي أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ دَمَ أَخِي" , فَقَالَا: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193؟ فَقَالَ:" قَاتَلْنَا حَتَّى لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ وَكَانَ الدِّينُ لِلَّهِ، وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِغَيْرِ اللَّهِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ان کے پاس ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فتنے کے زمانہ میں (جب ان پر حجاج ظالم نے حملہ کیا اور مکہ کا محاصرہ کیا) دو آدمی (علاء بن عرار اور حبان سلمی) آئے اور کہا کہ لوگ آپس میں لڑ کر تباہ ہو رہے ہیں۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں پھر آپ کیوں خاموش ہیں؟ اس فساد کو رفع کیوں نہیں کرتے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میری خاموشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کسی بھی بھائی مسلمان کا خون مجھ پر حرام قرار دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ہے «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة» کہ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم (قرآن کے حکم کے مطابق) لڑے ہیں، یہاں تک کہ فتنہ یعنی شرک و کفر باقی نہیں رہا اور دین خالص اللہ کے لیے ہو گیا، لیکن تم لوگ چاہتے ہو کہ تم اس لیے لڑو کہ فتنہ اور فساد پیدا ہو اور دین اسلام ضعیف ہو، کافروں کو جیت ہو اور اللہ کے برخلاف دوسروں کا حکم سنا جائے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4513  
4513. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے دور ابتلاء میں ان کے پاس دو شخص آئے اور کہنے لگے: لوگ آپس میں لڑ بھڑ کر تباہ ہو رہے ہیں جبکہ آپ حضرت عمر ؓ کے صاجزادے اور صحابی رسول ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آپ کو باہر نکل کر انہیں روکنے سے کون سی چیز رکاوٹ ہے؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: مجھے اس بات نے روکا ہے کہ اللہ تعالٰی نے میرے کسی بھی بھائی کا خون مجھ پر حرام کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ارشاد باری تعالٰی ہے: "ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔" اس پر حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: ہم تو اس وقت تک لڑے ہیں یہاں تک کہ فتنہ (کفر و شرک) باقی نہ رہا اور حاکمیت خالص اللہ تعالٰی کے لیے ہو گئی، لیکن تم لوگ فتنہ و فساد کے لیے لڑنا چاہتے ہو تاکہ اللہ کے سو دوسروں کی حاکمیت ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4513]
حدیث حاشیہ:

حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی تحریک پر انصار ومہاجرین کے مشور ے سے اپنے بیٹے یزید کو اپنی زندگی میں ولی عہد بنایا اور آپ کی وفات کےبعد وہ آپ کا جانشین ہوا لیکن حضرت حسین ؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ نے اس کی ولی عہدی اور جانشینی کو قبل نہ کیا، چنانچہ یزید کی وفات کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے مکہ میں خلافت کا دعویٰ کردیا۔
دوسری طرف گورنر مدینہ مروان بن حکم کی وفات کے بعد جب اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا تو اس نے حجاج بن یوسف کو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے مقابلے کے لیے مکہ مکرمہ روانہ کیا۔

انھی دنوں کی بات ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ خونِ ناحق بہنے کے اندیشے کے پیش نظر اس فتنہ وفساد سے کنارہ کش رہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے مخالفین میں سے دوشخص علاء بن عرار اور حبان سلمی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس آئے اور انھیں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنا چاہا اس پر انھوں نےفرمایا:
ہم نے مشرکین و کفار کے خلاف جنگ کرکے شرک وظلم کا خاتمہ کردیا ہے۔
اب تم محض کرسی اور اقتدار کے لیے لڑنا چاہتے ہو تاکہ فتنہ ختم ہونے کی بجائے خوب پھلے پھولے۔
میں تو اس اقتدار کی جنگ میں حصے دار نہیں بنوں گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4513