صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
30. بَابُ قَوْلِهِ: {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر اور ”ان کافروں سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ (شرک) باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ ہی کے لیے رہ جائے، سو اگر وہ باز آ جائیں تو سختی کسی پر بھی نہیں بجز (اپنے حق میں) ظلم کرنے والوں کے“۔
حدیث نمبر: 4514
وَزَادَ عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ , عَنْ ابْنِ وَهْبٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي فُلَانٌ، وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ , عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ , أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، عَنْ نَافِعٍ , أَنَّ رَجُلًا , أَتَى ابْنَ عُمَرَ , فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ , مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ تَحُجَّ عَامًا، وَتَعْتَمِرَ عَامًا، وَتَتْرُكَ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَدْ عَلِمْتَ مَا رَغَّبَ اللَّهُ فِيهِ؟ قَالَ:" يَا ابْنَ أَخِي بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ إِيمَانٍ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَالصَّلَاةِ الْخَمْسِ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ، وَأَدَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ" , قَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ سورة الحجرات آية 9 وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193 , قَالَ:" فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا، فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا قَتَلُوهُ وَإِمَّا يُعَذِّبُونَهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ، فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ".
اور عثمان بن صالح نے زیادہ بیان کیا کہ ان سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں فلاں شخص عبداللہ بن ربیعہ اور حیوہ بن شریح نے خبر دی، انہیں بکر بن عمرو معافری نے، ان سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ایک شخص (حکیم) ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم ایک سال حج کرتے ہو اور ایک سال عمرہ اور اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد میں شریک نہیں ہوتے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف کتنی رغبت دلائی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکٰوۃ دینا اور حج کرنا۔ انہوں نے کہا: اے ابا عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کیا آپ کو وہ معلوم نہیں ہے «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما‏» کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جنگ کریں تو ان میں صلح کراؤ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إلى أمر الله‏» تک (اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ان سے جنگ کرو) یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم یہ فرض انجام دے چکے ہیں اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے، کافروں کا ہجوم تھا تو کافر لوگ مسلمانوں کا دین خراب کرتے تھے، کہیں مسلمانوں کو مار ڈالتے، کہیں تکلیف دیتے یہاں تک کہ مسلمان بہت ہو گئے فتنہ جاتا رہا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 4  
´اسلام اور ایمان اصلاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ " . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر رکھی گئی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ہی سچا معبود ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں ہے اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 4]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 8]،
[صحيح مسلم 16]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام اور ایمان اصلاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اسلام اور ایمان کے درمیان کچھ فرق اس طرح سے بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام آدمی کی ظاہری کیفیت اور ایمان باطنی (اعتقادی) کیفیت پر دلالت کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَـكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ» اعرابیوں نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے! تم ایمان نہیں لائے، لیکن تم کہو: ہم اسلام لائے، اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ [49-الحجرات:14]
➋ تارک الصلوۃ کی تکفیر میں سلف صالحین میں اختلاف ہے، جمہور اس کی تکفیر کے قائل ہیں، نصوص شرعیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح تحقیق یہ ہے کہ جو شخص مطلقاً نماز ترک کر دے، بالکل نہ پڑھے وہ کافر ہے، اور جو شخص کبھی پڑھے اور کبھی نہ پڑھے تو ایسا شخص کافر نہیں ہے مگر پکا مجرم اور فاسق ہے، اس کا فعل کفریہ ہے، خلفیۃ المسلمین اس پر تعزیر فافذ کر سکتا ہے، اس پر اجماع ہے کہ نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزے اور حج کا انکار کرنے والا کافر اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 4   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4514  
4514. حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ابو عبدالرحمٰن! کیا وجہ ہے کہ آپ ایک سال حج کرتے ہیں اور دوسرے سال عمرے کے لیے جاتے ہیں، نیز آپ نے جہاد فی سبیل اللہ ترک کر رکھا ہے، حالانکہ آپ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے اس کے متعلق کس قدر رغبت دلائی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد تو پانچ چیزوں پر ہے: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکاۃ ادا کرنا اور حج کرنا۔ اس نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں اللہ کا ارشاد گرامی آپ کو معلوم نہیں: "اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر ان دونوں میں سے کوئی جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرتی ہے تو تم سب اس کے خلاف لڑو جو جماعت زیادتی کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔" (اور اللہ تعالٰی کا یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4514]
حدیث حاشیہ:

حامیان حکومت نے حضرت ابن عمر ؓ کے سامنے قرآنی آیت سے یہ استدلال کرنا چاہا کہ باغی مسلمانوں سے لڑنا جائز ہے۔
چونکہ آپ عظیم شخصیت ہیں، اس لیے آپ اس سلسلے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا مؤقف یہ تھا کہ باغی لوگوں سے لڑنے کے لیے عدد اور تیاری کی ضرورت ہے۔
وہ افراد اور اسلحہ میرے پاس نہیں ہے کہ میں ان سے قتال کروں، اس لیے تو میں نے تو سکوت اور تسلیم ورضا کا راستہ اختیار کرکے کنارہ کشی کرلی ہے، رہا فتنے کا خاتمہ تو ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اسےنیست ونابود کرچکے ہیں۔
اب تو کرسی واقتدار کے لیے قتال باقی رہ گیاہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

اس خارجی نے مسلمانوں کی اس جنگ کو جہاد کفار کے برابر کردیا۔
اگرچہ باغی مسلمانوں سے قتال جائز ہے لیکن وہ جہاد کفار کےبرابر ہرگز نہیں ہے۔
بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے اس مؤقف پر آخری وقت تک کاربند رہے، چنانچہ وہ اپنی ہمشیرہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے کہنے کے باوجود واقعہ تحکیم میں شامل نہ ہوئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4514