سنن دارمي
من كتاب الصللاة -- نماز کے مسائل
116. باب كَرَاهِيَةِ الْبُزَاقِ في الْمَسْجِدِ:
مسجد میں تھوکنے کی کراہت کا بیان
حدیث نمبر: 1436
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي جِدَارِ الْمَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَاةً وَحَتَّهَا ثُمَّ قَالَ: "إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ".
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (نبوی) کی دیوار پر بلغم دیکھا تو آپ نے کنکری سے اسے کھرچ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی (نماز میں) تھوکے تو اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکے، بلکہ بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوکے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1438]»
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے بلکہ متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 408، 409]، [مسلم 548]، [نسائي 724]، [ابن ماجه 761]، [أبويعلی 975، 993]، [ابن حبان 2268]، [الحميدي 745، 746]

وضاحت: (تشریح احادیث 1432 سے 1436)
تھوک، رینٹ، بلغم، کھنکار، طبی رطوبات ہیں، نزلہ و زکام وغیرہ میں انسان انہیں نکالنے اور صاف کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اب اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو ایسی صورت میں کیا کرے؟ قربان جایئے شریعتِ اسلامیہ مطہرہ پر کہ ہر چیز کو واضح کر دیا، کوئی بات پوشیدہ نہ رہی، ایسی صورت میں حکم یہ دیا کہ نمازی سامنے اور دائیں طرف نہ تھوکے بلکہ بائیں جانب یا پیر کے نیچے یا کپڑے کے ایک کنارے یا رومال پر تھوک کر اسے مل دے۔
دورِ حاضر میں اس کی بہترین صورت منادیل یا ٹشوز پیپر ہیں جن کو استعمال میں لانا نماز کی حالت میں درست ہے۔
اوّل اسلام میں مساجد خصوصاً مسجدِ نبوی کچی اور بلا فرش و جائے نماز کے تھی اس لئے حکم ہوا کہ اگر کسی نے مجبوری کے عالم میں تھوک ہی دیا ہے تو غلط کام کیا، اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے مٹی سے دفن کر دیا جائے یا کھرچ دیا جائے، خود خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بلغم یا تھوک مسجد یا دیوار پر دیکھا تو کھرچ دیا یا اشارہ فرمایا اور اسے کھرچ دیا گیا جیسا کہ مفصل طور پر مذکورہ بالا احادیث میں گذر چکا ہے۔
مساجد بیوت اللہ ہیں ان میں اللہ کی عبادت، ذکر و دعا ہوتی ہے اور وہ روئے زمین کی سب سے بہترین جگہ ہے، اس کا احترام یہ ہے کہ مساجد کو نجاست سے پاک و صاف رکھا جائے، بلکہ مسجد عطر و خوشبو سے اور صاف ستھرے فرش و سجادہ سے مزین ہونی چاہئے، اور ایسا کرنے والے کی بڑی فضیلت ہے۔
مذکورہ بالا احادیث میں سامنے نہ تھوکنے کی علت یہ ذکر کی گئی ہے کہ اللہ اس کے سامنے ہے اس سے مراد علماء و محدثین نے یہ لیا ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے سامنے ہے اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر نمازی کے سامنے موجود ہے جیسا کہ بعض صوفیہ، جہمیہ اور مبتدعہ کا عقیدہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو عرش پر ہے: «﴿الرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾ [طه: 5] » اس کا علم، اس کی رحمت، اس کی رؤیت اور سماعت سارے عالم اور ساری کائنات کو محیط ہے (وهو السميع العليم)۔
علمائے کرام نے اس کی اور بھی توجیہات ذکر کی ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے: فتح الباری و شرح النووی و دیگر شروح احادیث۔
اور دائیں طرف نہ تھوکنے کا حکم اس لئے ہے کہ دائیں طرف کاتب الحسنات فرشتہ ہوتا ہے، [كما فى رواية البخاري 416] ، تفصیل کے لئے دیکھئے: [فتح الباري 663/1] ۔
ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد میں تھوکنا، ناک سے رینٹ نکالنا، کھنکار ڈالنا گناہ اور بے ادبی ہے۔
مسجد کا ادب اور نمازیوں کے آرام و راحت کا خیال ضروری ہے، اور تھوکنا یا ناک سنکنا یا تو مسجد سے باہر کرے یا پھر اس طرح ٹشوز پیپر یا منادیل و رومال سے صفائی کرے کہ پاس بیٹھے ہوئے نمازیوں کو کراہت محسوس نہ ہو، اور نماز میں بھی یا نماز کے باہر بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ بعض روایات میں إذا صلّی کا ذکر ہے اور بعض روایات میں عام حکم ہے کہ مسجد میں نہ تھوکے نا ہی ناک سنکے اور نہ ہی بلغم نکالے۔
«واللّٰه أعلم وعلمه أتم» ۔