سنن دارمي
من كتاب الزكاة -- زکوٰۃ کے مسائل
1. باب في فَرْضِ الزَّكَاةِ:
زکاۃ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1653
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ:"إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ أَطَاعُوا لَكَ فِي ذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ فِي ذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ فِي ذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَإِيَّاكَ وَدَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ حِجَابٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم ان کو دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر جب وہ اس بارے میں تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ الله تعالیٰ نے ان پر زکاة دینا فرض کیا ہے جو ان کے مال داروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں میں تقسیم کر دی جائے گی، پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے (زیادہ نفیس) مال لینے سے بچنا اور مظلوم کی آہ (بدعا) سے بچنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1655]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1395]، [مسلم 19]، [أبوداؤد 1584]، [ترمذي 625]، [نسائي 2434]، [ابن ماجه 1783]، [ابن حبان 156، 2419]

وضاحت: (تشریح حدیث 1652)
زکاة کا مطلب ہے مخصوص مال میں سے سال گذرنے پر ایک مخصوص مقدار نکال کر غریبوں میں تقسیم کرنا، اس کے قواعد و ضوابط ہیں جو آگے آرہے ہیں، اور زکاۃ اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے، مذکور بالا حدیث سے یہ ہی ثابت کرنا مقصود ہے۔
صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود کوئی آدمی اپنے مال کی زکاۃ نہ دے تو اس کے لئے بڑی وعیدِ شدید ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعینِ زکاة کے لئے بہت سخت الفاظ میں کہا تھا: اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکاة میں چار مہینے کے بکری کے بچے کو بھی دینے سے انکار کیا جس کو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے قتال کروں گا۔
پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شروع میں اعتراض کیا لیکن بعد میں کہنے لگے: «فَوَاللّٰهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَدْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ» [بخاري: 1400] (قسم اللہ کی زکاۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو شرح صدر عطا فرمایا تھا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ وہی حق پر ہیں)۔
بلکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا: واللہ میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکاة میں تفریق کرے گا۔
بہرحال اس سے زکاة کی فرضیت اور فضیلت ثابت ہوئی، حدیث الباب سے یہ بھی ثابت ہوا کہ داعی الی الله کو سب سے پہلے توحید کی دعوت دینی چاہے پھر دیگر ارکانِ اسلام کی، اس حدیث سے نماز کی فضیلت بھی ثابت ہوئی جو شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے پہلا رکن ہے، اس میں مظلوم کی بددعا سے بھی بچنے کا حکم ہے جو سیدھی عرشِ بریں پر جاتی ہے اور شرفِ قبولیت حاصل کرتی ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزانہ گھر سے نکلتے وقت ظلم سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ، أَوْ أَزِلَّ أَوْ أُزَلَّ، أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ» (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ خود گمراہ ہو جاؤں یا گمراہ کر دیا جاؤں، یا پھسلوں یا پھسلا دیا جاؤں، یا ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، یا نادانی کروں یا میرے ساتھ نادانی کی جائے) [أبوداؤد 5094] ، [نسائي 5554] ، [ترمذي 3427] ، [ابن ماجه 3884] ۔