صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
10. بَابُ قَوْلِهِ: {وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو اور پانی نہ ہو تو پاک مٹی پر تیمم کرے“۔
صَعِيدًا: وَجْهَ الْأَرْضِ وَقَالَ جَابِرٌ: كَانَتِ الطَّوَاغِيتُ الَّتِي يَتَحَاكَمُونَ إِلَيْهَا فِي جُهَيْنَةَ وَاحِدٌ، وَفِي أَسْلَمَ وَاحِدٌ وَفِي كُلِّ حَيٍّ وَاحِدٌ كُهَّانٌ، يَنْزِلُ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ، وَقَالَ عُمَرُ: الْجِبْت السِّحْر، وَالطَّاغُوتُ الشَّيْطَانُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: الْجِبْتُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ شَيْطَانٌ، وَالطَّاغُوتُ الْكَاهِنُ.
‏‏‏‏ «صعيدا‏» زمین کی ظاہری سطح کو کہتے ہیں۔ جابر نے کہا کہ طاغوت بڑے ظالم مشرک قسم کے سردار لوگ جن کے یہاں جاہلیت میں لوگ مقدمات لے جاتے تھے۔ ایک ایسا سردار قبیلہ جہینہ میں تھا، ایک قبیلہ اسلم میں تھا اور ہر قبیلہ میں ہی ایک ایسا طاغوت ہوتا تھا۔ یہ وہی کاہن تھے جن کے پاس شیطان (غیب کی خبریں لے کر) آیا کرتے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ «الجبت» سے مراد جادو ہے اور «الطاغوت» سے مراد شیطان ہے اور عکرمہ نے کہا کہ «الجبت» حبشی زبان میں شیطان کو کہتے ہیں اور «الطاغوت» بمعنی کاہن کے آتا ہے۔