سنن دارمي
من كتاب الصوم -- روزے کے مسائل
11. باب في تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ:
افطار میں جلدی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1738
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ وَغَابَتْ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرْتَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رات اس طرف (یعنی مشرق) سے آئے اور دن ادھر (یعنی مغرب میں) چلا جائے تو تمہارا افطار (کا وقت) ہو گیا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1742]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1954]، [مسلم 1100]، [أبوداؤد 2351]، [ترمذي 698]، [أبويعلی 240]، [ابن حبان 3513]، [مسند الحميدي 20]

وضاحت: (تشریح حدیث 1737)
بخاری شریف کی روایت میں ہے: «فقد أفطر الصائم» یعنی جب سورج مغرب میں ڈوب جائے تو روزے دار کے افطار کا ٹائم ہوگیا، امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: اس کا مطلب ہے «فليفطر الصائم» یعنی روزے دار افطار کر لے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب غروبِ آفتاب کا یقین ہو جائے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے اور تاخیر کرنا درست نہیں۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب روزہ جلدی کھولتے اور سحری کھانے میں لوگوں سے زیادہ تاخیر کرتے۔
دورِ حاضر میں بعض لوگ عموماً روزہ تو دیر سے کھولتے ہیں اور سحری جلدی کھا لیتے ہیں اسی وجہ سے خیر ان سے دور ہو رہا ہے اور شر و فتنہ میں پڑ گئے ہیں اور ان پر تباہی آ رہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درست ثابت ہو رہا ہے، جب سے مسلمانوں نے سنّت پر عمل چھوڑا ہے روز بروز تنزل کے غار میں گرتے جارہے ہیں اور خیر و برکت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔