سنن دارمي
من كتاب الصوم -- روزے کے مسائل
46. باب في صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ:
عاشوراء کے روزے کا بیان
حدیث نمبر: 1800
أَخْبَرَنَا يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ، فَلْيَصُمْهُ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ". وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَصُومُهُ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صِيَامَهُ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ یوم عاشوراء ہے اور قریش زمانہ جاہلیت میں اس کا روزہ رکھتے تھے، پس تم میں سے جس کو پسند ہو عاشوراء کا روزہ رکھے، اور جو اسے ترک کرنا چاہے ترک کر دے۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خصوصیت سے عاشوراء کا روزہ نہ رکھتے تھے الا یہ کہ ان کے روزوں کے ایام میں عاشوراء آ جاتا تو اپنے روزے پورے کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ولكنه متابع عليه والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1803]»
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1892، 1893]، [مسلم 1126]، [ابن حبان 3622]، [أبوداؤد 2443]، [ابن ماجه 1737]

وضاحت: (تشریح احادیث 1796 سے 1800)
ابتدائے اسلام میں عاشوراء کے روزے کا حکم ہوا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ بطورِ فریضہ چھوڑ دیا گیا اور اختیار دیا گیا کہ جو چاہے رکھے اور جو چاہے یہ روزہ نہ رکھے کما في البخاری، یہ روایت آگے آ رہی ہے لیکن اس روزے کی بھی بڑی فضیلت ہے کما مر۔