سنن دارمي
من كتاب الصوم -- روزے کے مسائل
46. باب في صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ:
عاشوراء کے روزے کا بیان
حدیث نمبر: 1801
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، حَتَّى إِذَا فُرِضَ رَمَضَانُ، كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةُ، وَتُرِكَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کے دن روزہ رکھا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا یہاں تک کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ فریضہ ہو گئے اور عاشورا کو ترک کر دیا، جس نے چاہا روزہ رکھا اور جس نے چاہا چھوڑ دیا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1804]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1893، 2001، 2002]، [مسلم 1125]، [أبوداؤد 2442]، [ترمذي 753]، [أبويعلی 4638]، [ابن حبان 3621]، [الحميدي 202، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 1800)
ان تمام احادیث سے عاشورا کے روزے کی فضیلت و اہمیت معلوم ہوئی اس لئے محرم کی دس تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے نیز ایک دن قبل یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھنا چاہیے۔
علمائے کرام نے اس کی تین صورتیں ذکر کی ہیں: نو دس گیارہ تین دن تک کا روزہ رکھے یا نو اور دس دو دن کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ کا روزہ رکھے۔
پہلی صورت سب سے افضل ہے، اور صرف دس محرم کا روزہ رکھنے کو علمائے کرام نے مکروہ کہا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں آئندہ سال بقیدِ حیات رہا تو نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا۔
ایک اور حدیث ہے کہ یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو اور نو اور دس کا روزہ رکھو، اس روزے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اس سے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، الله تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین۔