سنن دارمي
من كتاب الصوم -- روزے کے مسائل
48. باب النَّهْيِ عَنِ الصِّيَامِ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ:
ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1805
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلٍ، أَنَّهُ: دَخَلَ هُوَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَذَلِكَ الْغَدَ أَوْ بَعْدَ الْغَدِ مِنْ يَوْمِ الْأَضْحَى، فَقَرَّبَ إِلَيْهِمْ عَمْرٌو طَعَامًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنِّي صَائِمٌ. فَقَالَ عَمْرٌو:"أَفْطِرْ، فَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِفِطْرِهَا وَيَنْهَانَا عَنْ صِيَامِهَا. فَأَفْطَرَ عَبْدُ اللَّهِ، فَأَكَلَ وَأَكَلْتُ مَعَهُ".
عقیل کے آزاد کردہ غلام ابومرہ سے مروی ہے کہ وہ اور عبداللہ بن عمرو، ان کے والد سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عید الاضحیٰ کے بعد پہلے یا دوسرے دن (گیارہ یا بارہ ذوالحجہ کو) حاضر ہوئے تو سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے لئے کھانا لگایا، عبداللہ نے کہا: میرا روزہ ہے، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: روزہ توڑ دو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ان دنوں میں روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، لہٰذا عبداللہ بن عمرو نے روزہ توڑ دیا اور کھانا کھایا، میں نے بھی ان کے ساتھ کھانا کھایا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح غير أنه لا ينفرد به فقد تابعه عليه شعيب بن الليث بن سعد وهو ثقة فقيه نبيل فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 1808]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری صحیح سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2418]، [ابن خزيمه 2149]، [مالك فى الحج 138]

وضاحت: (تشریح احادیث 1803 سے 1805)
ان احادیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے مطلقاً ایامِ تشریق کے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، لیکن اصح یہ ہے کہ عرفہ کے دن نو ذوالحجہ کو اور ایامِ تشریق 11، 12، 13 ذوالحجہ کو حاجی کے لئے روزہ رکھنا مناسب نہیں، ہاں متمتع جس کے پاس قربانی کرنے کے لئے پیسے نہ ہوں اور شروع ذوالحجہ میں اس نے روزے نہ رکھے ہوں تو ایامِ تشریق میں تین دن روزے رکھ سکتا ہے، اور عرفہ کا روزہ جو لوگ عرفات میں نہ ہوں ان کے لئے باعثِ خیر و برکت ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے، اور اگلے پچھلے ایک سال کے صغیرہ گناہ اس ایک روزے کی بدولت معاف کر دیئے جاتے ہیں، کما فی صحیح مسلم۔
سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی عرفے کے دن ہی روزہ رکھنا چاہیے، خواہ وہ ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ ہو یا نو، آج کل ذرائع اعلام سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عرفہ کا دن کب ہے۔
ہندوستان وغیرہ میں وہاں کے حساب سے نو ذوالحجہ کا لوگ روزہ رکھتے ہیں جو سعودی عرب میں 10 ذوالحجہ اور یوم النحر کا دن ہوتا ہے، عرفہ کا دن نہیں ہوتا۔
«(فَلْيَتَأَمَّلِ الْعَامِلُوْنَ)»، نیز ذوالحجہ کے ایک سے نو ذوالحجہ تک روزہ رکھنا افضل ہے۔