سنن دارمي
من كتاب الصوم -- روزے کے مسائل
49. باب الرَّجُلِ يَمُوتُ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ:
کوئی آدمی مر جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں اس کا بیان
حدیث نمبر: 1806
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً نَذَرَتْ أَنْ تَصُومَ، فَمَاتَتْ، فَجَاءَ أَخُوهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟"قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: "فَاقْضُوا اللَّهَ، فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ". قَالَ: فَصَامَ عَنْهَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی لیکن اس کا انتقال ہو گیا تو اس کا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بارے میں سوال کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اگر ان کے اوپر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرو، اللہ تعالیٰ وفا کا زیادہ حق دار ہے۔ راوی نے کہا: پس بھائی نے بہن کی طرف سے روزہ رکھا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1809]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1953]، [مسلم 1148، 1149]، [أبوداؤد 3310]، [ترمذي 716]، [ابن ماجه 1758]، [ابن حبان 3530-3570]

وضاحت: (تشریح حدیث 1805)
اس حدیث میں سوال حج کی نذر پوری کرنے کا ہے اور جواب میں روزے کی قضا کا ذکر ہے، غالباً الگ الگ واقعات ہیں جو کسی راوی سے یکجا ہو گئے ہیں۔
کتبِ احادیث میں روزے کی قضاء کا ذکر ہے اور [مسلم 1149] میں ایک الگ حدیث میں حج کا ذکر ہے، علی کل حال علماء کا اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کسی میّت پر روزہ یا حج واجب الاداء ہو تو ولی کیا کرے؟ اگر نذر کا حج یا روزہ ہے تو اس کے ولی کو پورا کرنا چاہیے، اور اگر رمضان کے روزے ہیں یا فریضۂ حج میّت پر واجب ہو تو بعض ائمہ نے کہا کہ اس کی میراث سے روزے کا فدیہ ادا کیا جائے اور میّت کے پیسے سے ہی حج کیا جائے، لیکن صحیح یہ ہے کہ «مَنْ مَاتَ وَ عَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهّ.» [بخاري 1952] کے تحت میّت پر کوئی بھی روزہ ہو اس کا قریبی ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے، اور حج بھی کر سکتا ہے جیسا کہ احادیث میں وضاحت موجود ہے۔
(دیکھئے: حدیث رقم: 1874)۔