سنن دارمي
من كتاب المناسك -- حج اور عمرہ کے بیان میں
34. باب في سُنَّةِ الْحَجِّ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ
حدیث نمبر: 1889
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، بِهَذَا.
اس طریق سے بھی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1893]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 1887 سے 1889)
اس حدیث سے مختصراً رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ معلوم ہوا، اس میں بہت سارے مسائل بیان کر دیئے گئے ہیں اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر دیا ہے۔
اس حدیث میں بڑے بڑے فائدے ہیں اور بہت سے قواعدِ اسلام ہیں، اور یہ حدیث مسلم کی اکیلی حدیثوں سے ہے کہ بخاری میں نہیں ہے، اور ابوداؤد نے مثلِ مسلم کے روایت کی ہے، اور ابوبکر بن منذر نے ایک کتاب تصنیف کی ہے فقط اس کے فائدوں میں، اور اس سے ڈیڑھ سو سے اوپر مسئلے نکالے ہیں۔
اور اگر کوئی غور کرے تو اس سے بھی زیادہ پاوے، اور اب اتنے ٹکڑے میں جو فوائد ہیں جن پر تنبیہ کی احتیاج ہے ہم ان کو ذکر کرتے ہیں۔
(1) یہ کہ جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم جابر بن عبداللہ کے پاس گئے تو انہوں نے سب لوگوں کو پو چھا، جب لوگ ملاقات کو آئیں تو ہر ایک کی خاطر کی جائے اس کے مرتبے کے موافق، جیسا سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ خیال رکھو لوگوں کے مرتبے کا۔
(2) میں نے کہا: میں محمد بن علی امام حسین کا پوتا ہوں سو انہوں نے میری طرف شفقت سے ہاتھ بڑھایا اور اس میں تعظیم اور خاطر داری ہے اہلِ بیت کی، جیسے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے دلجوئی کی محمد بن علی کی جو پوتے ہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے۔
(3) (سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: مرحبا خوش رہو اور شاباش) اس سے معلوم ہوا کہ جو آوے اس کے دل خوشی کچھ بات کہنا۔
(4) نرمی اور اخلاق اور انس دینا اپنے ملاقاتیوں کو اور ان کو محبت سے جرأت دینا کہ کچھ پوچھیں اور خوف نہ کریں، اسی لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا پھر فرمایا کہ پوچھو۔
(5) صاحب زادہ صاحب محمد نے جو یہ کہا کہ میں ان دنوں جوان تھا اس سے معلوم ہوا کہ وجہ ان سے زیادہ محبت کرنے کی اور دلجوئی کی یہی تھی کہ وہ صغیر السن اور چھوٹے تھے، اور بوڑھوں کے ساتھ یہ بات کہ سینہ پر ہاتھ رکھنا ضروری نہیں، اور یہ خاطر داری سبب ہوگی ان کو حدیث کا مطلب یا در کھنے کی۔
(6) وہ یعنی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نابینا تھے اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امامت اندھے کی روا ہے اور اس کے جائز ہونے میں اختلاف نہیں، مگر افضل ہونے میں تین قول ہیں شافعیہ کے: ایک یہ کہ امام ہونا اندھے کا آنکھ والے سے افضل ہے اس لئے کہ اس کی نگاہ کہیں نہیں پڑتی اور خیال نہیں بٹتا۔
دوسرے یہ کہ آنکھ والا افضل ہے اس لئے وہ ناپاکیوں سے خوب بچ سکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ دونوں برابر ہیں اور یہی قول صحیح تر ہے اور یہی منصوص ہے امام شافعی رحمہ اللہ سے۔
(7) یہ کہ گھر والے کا امام ہونا افضل ہے گو نابینا بھی ہو۔
(8) یہ کہ وہ کھڑے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر۔
نماز جائز ہے ایک کپڑے سے اگرچہ اور کپڑے بھی موجود ہوں، جیسے ان کی بڑی چادر موجود تھی۔
(9) تپائی وغیرہ کا گھر میں رہنا جائز ہے، پھر نماز پڑھائی پکار دیا تاکہ لوگ تیاری کریں حج کی اور مناسک اور احکامِ حج خوب سیکھ لیں، اور آپ کی باتیں اور وصیتیں خوب یاد کریں اور لوگوں کو پہنچا دیں، اور دعوتِ اسلام کی اور شوکتِ ایمان کی خوب ظاہر ہو جاوے۔
(10) اس سے معلوم ہوا کہ امام کو مستحب ہے کہ جب بڑے کام پر چلے تو لوگوں کو آگاہ کر دے کہ اس کی سواری کے لئے تیار ہو جائیں۔
(11) معلوم ہوا کہ سب لوگوں نے احرام حج کا باندھا اسی لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر شخص نے وہی کیا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لوگ ہدی نہیں لائے تھے ان کو فسخ حج بعمرہ کا حکم فرمایا تو لوگوں نے تأمل کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ کرنا پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کیا کہ میرے ساتھ ہدی ہے ورنہ میں بھی احرام کھول ڈالتا۔
اور معلوم ہوا کہ سیدنا علی اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما نے بھی احرام حج ہی کا باندھا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احرام تھا۔
غرض ہم لوگ سے سوار ہوئے قصوا اونٹنی پر تک اس سے کئی مسئلے معلوم ہوئے، چنانچہ
(12).... بات یہ ہے کہ مستحب ہے غسل احرام کا اس عورت کو بھی جو حائضہ ہو یا نفاس والی۔
(13) نفاس والی عورت کو مستحب ہے لنگوٹ باندھنا، کچھ کپڑا اندام نہائی پر رکھ لے، اور اس میں اختلاف نہیں۔
(14) معلوم ہوا کہ وقت احرام کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھی، اور نووی نے ان کو مستحب کہا ہے، اور کہا ہے یہ مذہب کافہ علماء کا ہے کہ احرام کے وقت دو رکعت مستحب ہے سوا حسن بصری وغیرہ کے، اور جو لوگ استحباب کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی نہ پڑھے تو اس پر کچھ دم وغیرہ لازم نہیں آتا، نہ وہ گنہگار ہوتا ہے، مگر ایک فضیلت فوت ہو گئی، اور جن وقتوں میں نماز منع ہے اگر اس وقت احرام باندھے تو مشہور یہی ہے کہ نہ پڑھے، اور بعض اصحابِ شافعیہ کا قول ہے کہ پڑھ لے اور حسن بصری وغیرہ نے کہا ہے کہ ان دو رکعتوں کا پڑھنا کسی نمازِ فرض کے بعد مستحب ہے کہ نہیں، تو نہیں۔
اور ابن تیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں فرمایا ہے، جو بڑے محقق اور حافظِ حدیث ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی دو رکعت پڑھیں اور لبیک پکاری حج اور عمرہ دونوں کی، اور یہ نماز ظہر کی فرض تھی۔
اور احرام کی دو رکعتیں پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں ثابت نہیں سوا فرض ظہر کے، اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھیں، پس غالب ہے کہ یہ ظہر ہی کی دو رکعتیں ہوں اور احرام کی نہ ہوں، چنانچہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذی الحلیفہ میں دو، پس یہ رکعتیں ظہر ہی کی تھیں اور قول ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا قوی معلوم ہوتا ہے، غرض جنہوں نے سب روایتوں میں غور نہیں کیا انہوں نے سمجھا کہ یہ احرام کی تھیں، اور قصواء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام تھا۔
(یہاں تک کہ جب آپ کو لے کر سے وہی ہم نے بھی کیا) تک قولہ، سوار اور پیادے اس سے۔
(15) مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ حج میں سوار اور پیادہ دونوں طرح جانا روا ہے اور یہ مسئلہ ایسا ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے اور دلائل کتاب و سنّت اس میں موجود ہیں، چنانچہ الله تعالیٰ جل شانہ فرماتا ہے: «‏‏‏‏﴿وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ﴾ [الحج: 27] » اور اختلاف ہے علماء کا اس میں کہ افضل کیا ہے، سو امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ اور جمہور کا قول ہے کہ سواری پر جانا افضل ہے اس لئے کہ اس میں پیروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، اور اس لئے بھی کہ اس میں مناسک کا ادا کرنا آسان ہے، اور اس لئے بھی کہ اس میں خرچ زیادہ ہوتا ہے، اور جتنا خرچ زیادہ ہو اتنا ہی ثواب زیادہ ہے اس لئے کہ وہ الله تعالیٰ کی راہ میں ہے۔
اور امام داؤد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ پیدل جانا افضل ہے کہ اس میں مشقت زیادہ ہے، اور یہ قول ٹھیک نہیں اس لئے کہ مشقت مطلوب نہیں بلکہ پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلوب ہے۔
(16) یہ مسئلہ ہے کہ یہ جو کہا کہ ان پر قرآن اترتا تھا اس سے ثابت ہوگیا کہ جو عمل ان کی طرف سے روایت ہو اسی کو اختیار کرنا ضروری ہے اور وہی دین ہے، نہ وہ قول و فعل جو رائے سے نکالا گیا ہو کہ وہ ہرگز قابلِ اخذ نہیں، نہ وہ دین ہو سکتا ہے۔
یعنی جن صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک پر کچھ زیادہ کئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا۔
اس سے:
(17) مسئلہ معلوم ہوگیا کہ لبیک میں زیادتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کی اور یہ جو کہا کہ توحید کے ساتھ، اس سے معلوم ہوا کہ مشرک لوگ جو شرک کی باتیں بڑھاتے تھے ان کو حضرت نے نکال دیا، اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ فقط اتنا ہی لبیک کہنا جتنا حضرت سے ثابت ہے مستحب ہے، اور یہی قول ہے امام مالک و امام شافعی رحمہم اللہ کا۔
(یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ سے جو صفا کی طرف ہے، تک) اس سے کئی مسئلے معلوم ہوئے، چنانچہ:
(18) یہ ہے کہ طوافِ قدوم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار رمل کیا اور چار بار بدستور متعارف چلے، اس سے ثابت ہوا کہ طوافِ قدوم سنّت ہے اور اس پر ساری امّت کا اتفاق ہے۔
(19) یہ کہ طواف سات پھیرے ہے۔
(20) یہ کہ رمل تین پھیروں میں اوّل کے سنّت ہے، اور رمل اچھل کر چلنے کو کہتے ہیں اور ہر پھیرے کو شوط کہتے ہیں، اور اصحابِ شافعیہ کا قول ہے کہ ایک طواف میں خواه حج کا ہو یا عمرہ کا رمل سنّت ہے، اور سوا حج اور عمرہ کے جو طواف ہو اس میں رمل سنّت نہیں، اور جلدی چلنا بھی ایک میں سنّت ہے دوسرے طواف میں نہیں، اور اس میں شافعی کے دو قول مشہور ہیں۔
اصح قول یہ ہے کہ جلدی چلنا اس طواف میں سنّت ہے جس کے بعد سعی ہے ورنہ نہیں، اور یہ صورت طوافِ قدوم اور طوافِ افاضہ میں ہو سکتی ہے کہ ان دونوں کے بعد سعی ہو سکتی ہے، اور طوافِ وداع میں نہیں ہو سکتی، اور دوسرا قول یہ ہے کہ جلدی نہ چلے مگر طوافِ قدوم میں خواہ اس کے بعد سعی کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔
اور اسی طرح طوافِ عمرہ میں جلدی اس لئے کہ عمره میں اس کے بعد کوئی طواف نہیں اور اسی طرح سنّت ہے اضطباع۔
(21) مسئلہ: اضطباع یہ ہے کہ چادر بیچ داہنی بغل کے نیچے ڈال دے اور دونوں سرے ایک آگے سے ایک پیچھے سے لے کر بائیں کندھے پر ڈال دے، اور دایاں کندھا کھلا رہے کہ اس میں ایک بہادری پائی جاتی ہے، اور یہ اضطباع بھی اسی طواف میں سنّت ہے جس میں رمل سنّت ہے، اور اصل رمل کی یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرۂ قضاء میں مکہ تشریف لائے تو مشرکانِ مکہ نے کہا کہ ان کو مدینہ کے تپ نے دبلا کر دیا اور یہ سست ہو گئے، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاروں کو حکم دیا کہ اس طرح طواف کریں کہ کافروں پر رعب ہو جائے اور بہادری اور قوت مسلمانوں کی ان پر ظاہر، اور بعد اس علت دور ہو جانے کے بھی یہ حکم حجۃ الوداع میں باقی رہا، اب وہ قیامت تک سنّت ہوگیا، بخلاف حصہ مولفہ کے کہ وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا اب نہ رہا۔
(22) مسئلہ یہ ہے کہ جب طواف سے فارغ ہو تو مقامِ ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت طواف کی ادا کرے، اور اس میں اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا سنّت، اور شافعیہ کے اس میں تین قول ہیں، اوّل: اور سب سے صحیح اور پکا یہ ہے کہ یہ سنّت ہے۔
دوسرا: یہ کہ واجب، تیسرا: یہ کہ اگر طواف واجب ہے تو یہ رکعتیں بھی واجب ہیں، اور اگر طواف سنّت ہے تو یہ بھی سنّت ہیں اور بہر حال اگر کسی نے ان کو نہ پڑھا تو طواف اس کا باطل نہیں ہوتا، اور مسنون یہی ہے کہ ان کو مقامِ ابراہیم کے پیچھے پڑھے اور اگر وہاں جگہ نہ ملے تو حجر میں (یعنی حطیم میں پڑھے) اور نہیں تو مسجد میں، نہیں تو حرم میں، اور اگر اپنے وطن میں جا کر پڑھے جب بھی رواے ہے، اور اگر کئی بار پورا طواف یعنی سات سات شوط کر کے پھر ہر طواف کے لئے دو دو رکعت ادا کرے تو بھی اصحابِ شافعیہ کے نزدیک جائز ہے مگر خلافِ اولی ہے اور مکروہ نہیں، اور اسی کے قائل ہیں سیدنا مسور بن مخرمہ و سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور طاؤس اور عطار اور سعید بن جبیر اور احمد اور اسحاق اور ابویوسف، اور مکروہ کہا ہے اس کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حسن بصری اور زہری اور مالک اور ثوری اور ابوحنیفہ اور ابوثور اور محمد بن حسن اور ابن منذر نے، اور نقل کیا ہے اس کو قاضی عیاض نے جمہورِ فقہاء۔
(23) مسئلہ یہ ہے کہ طواف کی رکعتوں میں پہلی رکعت میں «‏‏‏‏﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾» ‏‏‏‏ اور دوسری میں «‏‏‏‏﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» ‏‏‏‏ پڑھنا سنّت ہے۔
(24) مسئلہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ طوافِ قدوم کے بعد سنّت ہے کہ جب دو رکعتوں سے فارغ ہو تو پھر حجرِ اسود کو چھوئے اور باب الصفا سے نکلے، اور اسی پر اتفاق ہے کہ یہ چھونا واجب نہیں، اور اگر نہ چھوے تو کچھ دم لازم نہیں آتا، اور یہی قول ہے امام شافعی رحمہ اللہ کا۔
(25) مسئلہ یہ ہے کہ اس روایت میں «‏‏‏‏﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» ‏‏‏‏ پہلے مذکور ہے اور «‏‏‏‏﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾» ‏‏‏‏ بعد میں، تو معلوم ہوا کہ پہلی رکعت میں «‏‏‏‏﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» ‏‏‏‏ پڑھے اور دوسری میں «‏‏‏‏﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾» ‏‏‏‏، اور اس سے ثابت ہوا کہ مقدم مؤخر سورتیں پڑھنا ہے اگرچہ بعض جہال اس میں تعجب کریں، اور بعض روایتوں میں اس کے برعکس بھی آیا ہے جیسے ہم نے تیسویں مسئلہ میں لکھا ہے، ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں فرمایا کہ طوافِ قدوم میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل کیا یا سواری پر، اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طوافِ قدوم پیدل کیا، اور جن روایتوں میں حجۃ الوداع میں اونٹ پرطواف کرنا آیا ہے، مراد اس سے شاید طوافِ افاضہ ہو، اور ابن حزم نے جو صفا اور مروہ کے طواف میں کہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے اونٹ پر اور تین بار دوڑا اور چار بار آہستہ چلے، یہ ان کی غلطی ہے، حقیقت میں یہ دوڑنا تین بار اور چار بار آہستہ چلنا ہی طواف بیت اللہ میں واقع ہوا ہے نہ سعی بین الصفا و المروہ میں، پھر کہا ہے کہ صفا اور مروہ میں ہر بار بطنِ وادی یعنی بیچ کے نشیب کی جگہ میں جہاں اب دو سبز کھمبے کھڑے کر دیئے ہیں میں دوڑنا مسنون ہے اور باقی راہ میں آہستہ چلنا، اور کہا ہے کہ میں نے اپنے استاد شیخ ابن تیمیہ قدس الله روحہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ ابن حزم کی بھول ہے اور یہ بھول ایسی ہے جیسے کسی نے کہا ہے کہ حضرت چودہ بار پھرے صفا اور مروہ کے بیچ میں اور وہ یہ سمجھا کہ شاید آنے اور جانے دونوں کو ملا کر ایک سعی کہتے ہیں، اور ایسے ہی سات مرتبہ کرنا چاہیے حالانکہ یہ صریح غلط ہے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو سعی صفا پر تمام ہوتی جہاں سے شروع ہوئی تھی اور یہ بخوبی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی مروہ پر ختم کی اور صفا سے شروع کی۔
پھر جب صفا کے قریب پہنچنے سے طواف تمام ہوا مروہ پر، تک اس سے بہت مناسک معلوم ہوئے، چنانچہ:
(26) مسئلہ یہ ہے کہ صفا سے شروع کرنا چاہیے اور یہی قول ہے شافعی اور مالک اور جمہور کا، نسائی میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ شروع کرو وہیں سے جہاں سے شروع کیا ہے اللہ نے، اور اسناد اس کی صحیح ہے۔
(27) مسئلہ ہے کہ صفا اور مروہ پر چڑھنا چاہیے، اور اس چڑھنے میں اختلاف ہے، جمہور شافعیہ نے کہا ہے کہ چڑھنا سنّت ہے، نہ شرط ہے نہ واجب ہے، اور اگر کوئی اس پر نہ چڑھا تو سعی ہوگئی مگر فضیلت فوت ہوئی، اور ابوالحفص بن وکیل شافعی کا قول ہے کہ سعی صحیح نہیں ہوئی اور صواب وہی قولِ اوّل ہے مگر ضرور ہے کہ صفا کی دوڑ میں ایڑیاں لگا کر سعی شروع کرے اور مروہ کی دوڑ میں پیر کی انگلیاں لگا کر تمام کرے کہ سعی ناقص نہ ہو۔
(28) یہ ہے کہ مستحب ہے کہ اتنا چڑھے کہ کعبہ دکھائی دے اگر ممکن ہو ورنہ خیر۔
(29) یہ ہے کہ مستحب ہے بلکہ مسنون ہے کہ صفا پر کھڑا ہو اور وہیں ادعیات پڑھے اور دعا کرے قبلہ رخ ہو کر اور تین بار ذکر اور تین بار دعا کرے، اور بعضوں نے کہا تین بار ذکر اور دو بار دعا کرے مگر قولِ اوّل صحیح ہے، اور اس دعا میں اشارہ ہے کہ جنگِ احزاب میں تمام قبائلِ عرب مدینہ میں صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھ آئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھگا دیا اور یہ جنگ جس کو خندق کہتے ہیں چوتھے سال ہجرت کے یا پانچویں سال میں ماہِ شوال میں واقع ہوئی۔
(30) یہ کہ وادی کے بیچ میں دوڑنا مستحب ہے باقی چلنا حسبِ عادت، اور اس دوڑنے کو سعی کہتے ہیں، اور ہر بار میں جب وادی کے بیچ میں پہنچے دوڑ کر چلے اور اگر کسی نے اس کو ترک کیا تو فضیلت فوت ہوئی، یہ مذہب ہے شافعی کا اور ان کے موافقین کا، اور امام مالک نے کہا ہے کہ جو خوب نہ دوڑا اس پر دوباره اعادہ واجب ہے، اور ایک دوسری روایت بھی ان سے آئی ہے۔
(31) مسئلہ یہ ہے کہ مروہ پہنچ کر بھی وہی ذکر اور دعا کرے جو صفا پر کی ہے، اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔
(32) مسئلہ یہ ہے کہ معلوم ہوا کہ سعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مروہ پر تمام ہوئی تو صفا سے مروہ پر پہنچنا یہ ایک پھیرا ہوا اور وہاں سے پھر صفا پر آنا دوسرا پھیرا ہے، ایسے ہی سات پھیرے چاہئے، اور یہی مذہب ہے جمہور سلف وخلف کا۔
صرف دو شخصوں نے غلطی اور خطا سے ہمارا خلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ صفا سے جانا اور پھر صفا پر آجانا یہ ایک پھیرا ہوا غرض ایسے ہی سات پھیرے کہ جمہور کے حساب سے چودہ پھیرے ہوتے ہیں ضرور ہے، اور یہ قول ان کا حدیث سے مردود ہو گیا ہے اس لئے کہ اس صورت میں سعی صفا پر تمام ہوتی اور اس میں مذکور ہے کہ مروہ پر تمام ہوئی، اور دو شخص ابن بنت شافعی اور ابوبکر صیرفی ہیں اصحابِ شافعیہ سے ہیں، اور اب عمل ساری امّت کا جمہور کے موافق ہے، ابن قیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے زاد المعاد میں ان صاحبوں کے قول کو خطا کہا ہے۔
قولہ مجھے اگر پہلے سے معلوم ہوتا الى جن کے ساتھ قربانی تھی اس سے معلوم ہوگیا کہ انبیاء علمِ غیب نہیں ہوتا جب تک اللہ پاک کسی بات کی خبر بذریعہ وحی یا الہامِ صحیح کے نہ دے تب تک بات معلوم کر لینا ان کا کام نہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آرزو کی کہ اگر ہدی ساتھ نہ ہوتی تو احرام حج کا عمرہ کر کے فسخ کر ڈالتا کہ اس میں آسانی اور سہولت ہے امّت کے لئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب اختیار دیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باتوں میں تو اسے اختیار کرتے جو آسان یا آسان تر ہوتی۔
اب اس سے باطل ہوگیا قول ان لوگوں کا جو حج کے فسخ کے قائل نہیں عمرہ کر کے، اور بڑی تائید ہوئی مذہب ظاہر یہ ہے کہ جو فسخ حج بعمرہ کے قائل ہیں، اور اس کے مانعین دو عذر بڑے پیش کرتے ہیں:
اوّل یہ کہ جب صحابہ میں اختلاف ہوا اس کے جواز و عدم جواز میں تو احتیاط یہی ہے کہ فسخ نہ کرے اور اس کا جواب تو اتنا ہی کافی ہے کہ احتیاط جب ہوتی ترکِ فسخ میں کہ سنّتِ رسول الثقلین ہم پر ظاہر نہ ہوتی، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ظاہر ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لئے فرما دیا سراقہ بن جعشم کے جواب میں، تو اب احتیاط اتباعِ سنّت میں ہے نہ ترکِ سنّت میں۔
اور دوسرا عذر یہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فسخ حج کا حکم اس لئے دیا کہ معلوم ہو جائے ان لوگوں کو کہ عمرہ حج کے مہینوں میں جائز ہے اس لئے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عمرہ حج کے مہینوں میں ممنوع جانتے تھے اور یہ عذر اس سے بھی زیادہ لغو ہے، اور اس کا جواب اوّل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے تین عمرے کر چکے تھے اور وہ تینوں ذیقعدہ کے مہینے میں ہوئے تھے اور ذیقعدہ حج کے مہینوں میں سے ہے تو اب امرِ ممنوع کے بجا لانے کی جس کو منع کرنے ہو کیا ضرورت رہی۔
دوسرے یہ ہے کہ صحیحین میں روایات متعددہ میں یہ امر مذکور ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات پر اجازت دی کہ جو چاہے عمرہ کا احرام کرے، جو چاہے حج کا اور جو چاہے حج و عمرہ دونوں کا، پھر اسی سے معلوم ہوگیا کہ عمرہ حج کے مہینوں میں جائز ہو گیا اب فسخ کی کیا ضرورت رہی۔
تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخوبی تصریح کر دی اور صاف فرما دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے وہ احرام کھول ڈالے اور جس کے پاس ہدی ہے وہ محرم رہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آرزو کی اگر میں ہدی نہ لاتا تو احرام کھول ڈالتا، غرض دونوں قسم کے محرموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرق کیا تو بخوبی ثابت ہوگیا کہ احرام ہرگز مانع فسخ نہیں بلکہ ہدی کا ساتھ لانا مانع فسخ ہے، اور تم جو علت فسخ کی بیان کرتے ہو (یعنی: تاکہ صحابہ کو معلوم ہو جائے کہ ایامِ حج میں عمرہ درست ہے) یہ ہر محرم میں پائی جاتی ہے اور ایسی نہیں ہے کہ ایک محرم میں پائی جائے اور دوسری میں نہ پائی جائے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو فارق ٹھہرایا کہ جو لایا ہے وہ فسخ نہ کرے اور جو نہیں لایا ہے وہ فسخ کر دے، اور اگر وہ علت ہوتی جو تم نے کہی ہے تو سب کو فسخ کا حکم دیا، غرض اسی طرح کے گیارہ جواب مانعینِ فسخ کو علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں دیئے ہیں «(فمن أراد الزيادة فليرجع إليه)» اور یہ جو مذکور ہوا یعنی علم غیب نہ ہونا۔
(33) مسئلہ ہے اس حدیث کا اور جواز فسخِ حج۔
(34) اور یہ جو ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے برا مانا الخ، اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو خلافِ شرع کام پر ڈانٹ پلا سکتا ہے اگرچہ وہ پیغمبر زادی ہو پھر اوروں کا تو کیا ذکر ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تو یہی خیال ہوا پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت معلوم ہوگئی چپ ہو گئے۔
(35) مسئلہ یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی لبیک سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی یوں احرام باندھے کہ یا اللہ میرا احرام وہی ہے جو فلاں شخص کا احرام ہو، تو یہ روا ہے۔
(36) مسئلہ یہ ہے کہ راوی نے کہا کہ انہوں نے بال کترائے، اور اس سے معلوم ہوا کہ کتروانا بھی روا ہے گو منڈانا سر کا افضل ہے مردوں کو، مگر صحابہ نے یہاں افضل پر اس لئے عمل نہ کیا کہ اگر منڈاتے تو حج کے وقت مطلق بال نہ رہتے اس لئے یہاں تقصیر پر کفایت کی اور حلق نہ کیا۔
پھر جب ترویہ کا دن ہوا تو دونوں (ظہر و عصر) کے بیچ میں کچھ نہیں پڑھا، اس سے کئی مسائل معلوم ہوئے چنانچہ مع مسائل سابقہ:
(37) مسئلہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لئے آٹھویں تاریخ منیٰ کا ارادہ کیا، اس سے معلوم ہوا کہ جو مکہ میں ہو وہ آٹھویں تاریخ احرام باندھے اور یہی مذہب ہے امام شافعی اور ان کے موافقین کا کہ ان کے نزدیک افضل یہی ہے اسی حدیث کی رو سے۔
(38) یہ کہ سنّت یہی ہے کہ آٹھویں تاریخ سے پہلے منیٰ نہ جاوے۔
اور امام مالک نے پہلے اس سے جانے کو مکروہ کہا ہے اور بعض سلف نے کہا ہے کچھ مضائقہ نہیں اگر پہلے جاوے۔
(39) اور یہ جو فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اس جگہ میں سوار ہونا افضل ہے پیدل چلنے سے، جیسے اور راہوں میں حج کے سوار ہونا افضل ہے پیدل چلنے سے۔
اور امام نووی نے اسی کو صحیح کہا ہے اور امام شافعی کا ایک قول ضعیف بھی ہے کہ پیدل چلنا افضل ہے۔
(40) یہ کہ منیٰ میں یہ پانچ نمازیں پڑھنا مسنون ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھیں۔
(41) یہ کہ منیٰ میں اس شب یعنی نویں رات کو رہنا سنّت ہے اور یہ رہنا مسنون ہے کچھ رکن نہیں، نہ واجب ہے، اور اگر کسی نے اس کو چھوڑ دیا تو اس پر دم واجب نہیں ہوتا اور اس پر اجماع ہے۔
(42) یہ کہ جو کہا: جب آفتاب نکل آیا اس سے ثابت ہوا کہ منیٰ سے نہ نکلے جب تک آفتاب طلوع نہ ہو اور یہ سنّت ہے باتفاق۔
(43) یہ کہ نمرہ میں اترنا مستحب ہے کہ سنّت یہ ہے کہ عرفات میں داخل نہ ہوں جب تک آفتاب ڈھل نہ جائے، پھر جب آفتاب ڈھل جائے ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں۔
پھر عرفات میں داخل ہوں اس لئے نمرہ میں اترنا مسنون ہوا۔
پھر جس کا خیمہ ہو لگایا جائے اور زوال کے قبل غسل کریں وقوفِ عرفات کے لئے۔
پھر جب زوال ہو جائے امام لوگوں کے ساتھ مسجد ابراہیم میں جائے اور وہاں دو چھوٹے چھوٹے خطبے پڑھے اور دوسرا خطبہ بہت چھوٹا ہو۔
پھر اس کے بعد ظہر اور عصر دونوں کو جمع کر کے ادا کرے، پھر نماز سے فارغ ہو کر موقف میں جائے۔
(44) مسئلہ یہ ہے کہ معلوم ہوا کہ محرم کو خیمہ میں یا اور سایہ کے نیچے رہنا درست ہے۔
(45) خیموں کا رکھنا روا ہے بالوں کے ہوں خواہ اور کسی چیز کے۔
اور نمرہ ایک موضع ہے عرفات کی بغل میں اور عرفات میں داخل نہیں۔
قولہ قریش یقین کرتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ قریش تمام عرب کے خلاف کرتے تھے کہ عرب لوگ عرفات میں جا کر وقوف کرتے اور قریش مزدلفہ میں کھڑے رہتے اور کہتے کہ ہم الله تعالیٰ کے گھر والے ہیں ہم حرم سے باہر نہ جائیں گے اور مزدلفہ حرم میں ہے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرمانِ واجب الاذعان قرآن کے عرفات میں جا کر وقوف کیا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «‏‏‏‏﴿ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ﴾ [البقرة: 199] » یعنی پھر لوٹو وہاں سے جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیںو یعنی عرفات سے۔
(46) قولہ یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ عرفات میں داخل ہونا قبل صلوٰة ظهر و عصر کے خلافِ سنّت ہے۔
قولہ آپ وادی کے بیچ میں پہنچے الخ یہ وادی «عُرَنَه» ہے جس میں عین کو پیش را کو زبر اس کے بعد نون ہے اور عرنہ عرفات میں داخل نہیں امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اور تمام علماء کا یہی قول ہے مگر امام مالک فرماتے ہیں کہ عرفات میں ہے۔
(47) قولہ پھر خطبہ پڑھا الخ۔
اس سے مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ خطبہ دینا مستحب ہے امام کو عرفہ کے دن۔
اور یہ باتفاقِ امّت مسنون ہے اور جمہور کا یہی قول ہے، اور خلاف کیا ہے اس میں مالکیہ نے، اور مذہب شافعی کا یہ ہے کہ حج میں چار خطبے سنّت ہیں: ایک تو ساتویں تاریخ ذی الحجہ کی کعبہ کے پاس بعد ظہر کے۔
دوسرے یہی جو مذکور ہوا عرنہ میں عرفات کے دن۔
تیسرے یوم النحر میں یعنی دسویں تاریخ۔
چوتھے کوچ کے دن منیٰ سے جس کو یوم نفر اوّل کہتے ہیں اور وہ ایامِ تشریق کا دوسرا دن ہے یعنی بارہویں تاریخ۔
اور اصحاب شافعیہ نے کہا ہے کہ یہ سب جگہ ایک ہی ایک خطبہ ہے مگر عرفات کے دن کہ اس میں دو ہیں، اور اسی طرح یہ سب خطبے بعد نمازِ ظہر کے ہیں مگر خطبہ عرفات کہ وہ قبل ظہر کے ہے اور ہر خطبہ میں احکامِ ضروری کی تعلیم کرنا ضرور ہیں۔
قولہ اور تمہارے خون اور اموال الخ اس میں بڑی تاکید فرمائی کہ جیسے عرب کو اس دن کی حرمت اور اس ماہ کی حرمت اور اس شہرِ مکہ کی حرمت بخوبی معلوم تھی ویسے ہی ایک دوسرے کو مارنا، مال لوٹنا، ایذاء دینا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام فرمایا اور اس سے ثابت ہوا۔
(48) مسئلہ یہ ک نظیر دینا اور مثال بیان کرنا اور تشبیہ دینا درست ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں مال و جاہ کی حرمت کی تشبیہ دی۔
قولہ ہر چیز ایام جاہلیت کی میرے پیروں کے نیچے ہے الخ اس سے مقصود یہ ہے کہ بیع و شراء، اور معاملات ایسے کہ جن میں ابھی قبضہ نہیں، اور خون ایسے جن کا قصاص نہیں لیا گیا، اور سود جو وصول نہیں کیا گیا اس کا مطالبہ اب نہ کرنا چاہیے اور یہ سب باطل اور لغو ہو گیا۔
اور ابن ربیعہ کا نام محققوں نے لکھا ہے کہ ایاس تھا بیٹا ربیعہ کا، وہ بیٹا حارث کا، وہ بیٹا عبدالمطلب کا، اور بعضوں نے اس کا نام حارثہ کہا ہے اور یہ لڑکا چھوٹا تھا اور گھروں میں گھٹنوں کے بل چلتا تھا، اور بنی سعد اور بنی لیث کے بیچ میں لڑائی ہوئی اور اس کے ایک پتھر لگا اور مر گیا یقول ہے زبیر بن بکار کا۔
(49) اور یہ جو فرمایا: ڈرو اللہ سے عورتوں پر الخ اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور اخلاق اور محبت اور نرمی سے بسر کرنا ضروری ہے، اور اس بارے میں بہت احادیث آئی ہیں اور بہت ڈرایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حق تلفی سے، اور فرمایا ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح رہتا ہے۔
اور امام نووی کی اس بارے میں ایک کتاب ہے ریاض الصالحیں۔
اور یہ جو فرمایا: حلال کیا ہے تم نے ان کے ستر کو الخ یعنی الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: «‏‏‏‏﴿فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ [البقرة: 229] » اس حکمِ خدائے تعالیٰ سے ان کی فروج تم پر حلال ہوئی ہیں، اس کا خیال رکھو کہ انہیں تکلیف نہ دو اور ان کے حقوق تلف نہ کرو یا اس سے مراد کلمۂ توحید «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه» ہے کیونکہ مسلمان عورت غیر مسلمان مرد کو جائز نہیں، یا مراد اس سے یہ آیت: «﴿فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ﴾ [النساء: 3] » یا مراد کلمہ سے ایجاب و قبول ہے اور یہ کلمہ اللہ ہی نے بتایا ہے۔
اور یہ جو فرمایا: تمہارے بچھونے پر الخ اس سے زنا مراد نہیں اس لئے کہ اس میں تو رجم ہے یعنی پتھراؤ کر کے مار ڈالنا بلکہ مراد یہ ہے کہ کسی غیر کے ساتھ تخلیہ نہ کریں یا کسی کو گھر میں نہ آنے دیں جب تک کہ اجازت نہ ہو، خواہ مرد ہو، خواہ عورت، خواہ اجنبی ہو، خواہ بی بی کے محارم میں سے ہو، غرض بغیر اجازت شوہر کے کسی کو گھر میں آنے نہ دینا چاہیے، پھر خواہ اجازت زبان سے پائی جائے خواہ عرف و عادت سے۔