سنن دارمي
من كتاب المناسك -- حج اور عمرہ کے بیان میں
36. باب في فَسْخِ الْحَجِّ:
حج کا احرام کھول کر فسخ حج کا بیان
حدیث نمبر: 1893
أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: فَسْخُ الْحَجِّ لَنَا خَاصَّةً، أَمْ لِمَنْ بَعْدَنَا؟ قَالَ:"بَلْ لَنَا خَاصَّةً".
بلال بن حارث نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا حج کا فسخ کرنا صرف ہمارے لئے ہے یا ہمارے بعد آنے والے اور لوگوں کے لئے بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ ہمارے لئے خاص ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قال الإمام أحمد: ((ليس إسناده بالمعروف)). وهو حديث منكر، [مكتبه الشامله نمبر: 1897]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ دیکھئے: [أحمد 469/3]، [طبراني 1138]، [الحاكم 517/3]، [أبوداؤد 1808]، [نسائي 3790]، [ابن ماجه 2994]

وضاحت: (تشریح حدیث 1892)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فسخِ حج کا حکم قیامت تک لئے ہے، مذکورہ بالا حدیث کو انہوں نے منکر کہا ہے اور یہ صحابیٔ جلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مخالف ہے جس کو تقریباً 11 صحابۂ کرام نے روایت کیا ہے۔
بعض علماء نے کہا کہ یہ ہمارے لئے خاص ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حج فسخ کر کے پہلے عمرہ کرنا پھر حج کا احرام باندھنا یہ امر خاص مسلمانوں کے لئے ہے کیونکہ مشرکین اشہر الحج میں عمرہ کرنے کو برا جانتے تھے، ائمۂ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک حج کا فسخ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، لہٰذا جو حاجی جس نیّت سے احرام باندھے اسے پورا کرے۔
لیکن امام احمد رحمہ اللہ کا قول راجح ہے۔