سنن دارمي
من كتاب المناسك -- حج اور عمرہ کے بیان میں
53. باب بِمَا يَتِمُّ الْحَجُّ:
حج کی تکمیل کس طرح ہوتی ہے؟
حدیث نمبر: 1925
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمُرَ الدِّيلِيَّ يَقُولُ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَجِّ، فَقَالَ: "الْحَجُّ عَرَفَاتٌ أَوْ قَالَ: عَرَفَةَ، وَمَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، فَقَدْ أَدْرَكَ". وَقَالَ: "أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ سورة البقرة آية 203"..
سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج عرفات میں ٹھہرنے یا یہ کہا کہ عرفہ کے دن وقوف کرنا ہے اور جس نے مزدلفہ کی رات صبح ہونے سے پہلے وقوف عرفہ کر لیا تو اس نے حج کو پا لیا، نیز فرمایا: منیٰ میں ٹھہرنے کے تین دن ہیں۔ سو جس نے جلدی کی اور دو دن میں ہی (منیٰ سے) چلا گیا اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو دیر کر کے تیسرے دن گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1929]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1949]، [ترمذي 889]، [نسائي 3016]، [ابن ماجه 3015]، [ابن حبان 3892]، [الموارد 1009]، [الحميدي 923]

وضاحت: (تشریح حدیث 1924)
حج کی جان اور روح وقوفِ عرفہ ہے، جس کا وقت مختار زوالِ آفتاب سے غروب تک کا ہے، اگر کسی مصیبت و پریشانی کی وجہ سے کوئی غروبِ آفتاب تک عرفات میں نہ پہنچ سکا تو مزدلفہ کی رات میں عرفات میں تھوڑا قیام کر کے پھر مزدلفہ آجائے، کیونکہ نویں تاریخ کا پورا دن اور دس ذوالحجہ کی رات طلوعِ فجر تک بھی عرفات میں وقوف کر لیا تو حج ہو جائے گا، یہ ہی مسألہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
نیز یہ کہ منیٰ میں قیام کے دس ذوالحجہ کے بعد تین دن ہیں (11، 12، 13) اب اگر کوئی 10 اور 11 کو قیام کر کے رات گزار کر منیٰ سے 12 تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کنکری مار کر منیٰ سے چلا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور جو حاجی 11، 12 کو قیام کر کے 13 تاریخ کو بعد از زوال کنکری مار کر منیٰ سے جائے تو یہ بھی جائز ہے، جیسا کہ آیتِ شریفہ میں مذکور ہے۔
(واللہ اعلم)۔