سنن دارمي
من كتاب الاضاحي -- قربانی کے بیان میں
12. باب في ذَبِيحَةِ الْمُتَرَدِّي في الْبِئْرِ:
جانور کنوئیں میں گر جائے تو کس طرح ذبح کیا جائے؟
حدیث نمبر: 2011
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، وَعَفَّانُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعُشَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلَّا فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ؟ فَقَالَ: "لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا، لَأَجْزَأَ عَنْكَ". قَالَ حَمَّادٌ: حَمَلْنَاهُ عَلَى الْمُتَرَدِّي.
ابوالعشراء (اسامہ بن مالک) نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا حلق اور کوڑی ہی کے بیچ میں ذبح کرنا ضروری ہے؟ فرمایا: اگر تم اس کی ران چھید دو تو بھی تمہارے لئے کافی ہے۔ حماد بن سلمہ نے کہا: ہم اس کو کنویں میں گرے ہوئے جانور پر محمول کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2015]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ ابوالعشراء مجہول، ان کے والد غیر معروف، جن سے حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔ حوالہ دیکھے: [أبوداؤد 2825]، [ترمذي 1481]، [نسائي 4420]، [ابن ماجه 3184]، [فتح الباري 641/9]

وضاحت: (تشریح حدیث 2010)
اس حدیث کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ران میں کونچ دینا یا چھید دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ جب ذبح کرنے پر قدرت نہ ہو، جیسے جنگلی جانور بھاگ رہا ہو، یا پالتو جانور بھڑک جائے اور ذبح کرنے کی مہلت نہ ملے تو اس کو کہیں بھی مار کر زخمی کر سکتے ہیں اور پھر ذبح کر دیں (والله اعلم)۔