صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”پھر اگر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو“۔
حدیث نمبر: 4608
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" سَقَطَتْ قِلَادَةٌ لِي بِالْبَيْدَاءِ، وَنَحْنُ دَاخِلُونَ الْمَدِينَةَ، فَأَنَاخَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَزَلَ، فَثَنَى رَأْسَهُ فِي حَجْرِي رَاقِدًا، أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَكَزَنِي لَكْزَةً شَدِيدَةً، وَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ فِي قِلَادَةٍ، فَبِي الْمَوْتُ لِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَوْجَعَنِي، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ، وَحَضَرَتِ الصُّبْحُ، فَالْتُمِسَ الْمَاءُ فَلَمْ يُوجَدْ، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ سورة المائدة آية 6 الْآيَةَ، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: لَقَدْ بَارَكَ اللَّهُ لِلنَّاسِ فِيكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَرَكَةٌ لَهُمْ.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد قاسم نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میرا ہار مقام بیداء میں گم ہو گیا تھا۔ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنی سواری روک دی اور اتر گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میری گود میں رکھ کر سو رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آ گئے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ مار کر فرمایا کہ ایک ہار کے لیے تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے خیال سے میں بےحس و حرکت بیٹھی رہی حالانکہ مجھے تکلیف ہوئی تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور صبح کا وقت ہوا اور پانی کی تلاش ہوئی لیکن کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ اسی وقت یہ آیت اتری «يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة‏» الخ۔ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے آل ابی بکر! تمہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے باعث برکت بنایا ہے۔ یقیناً تم لوگوں کے لیے باعث برکت ہو۔ تمہارا ہار گم ہوا اللہ نے اس کی وجہ سے تیمم کی آیت نازل فرما دی جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے آسانی اور برکت ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 69  
´تیمم کا بیان`
«. . . 384- وعن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء أو بذات الجيش انقطع عقد لي، فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، وأقام الناس معه وليسوا على ماء وليس معهم ماء، فأتى الناس إلى أبى بكر فقالوا: ألا ترى ما صنعت عائشة، أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس وليسوا على ماء وليس معهم ماء، قالت: فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام، فقال: حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء وليس معهم ماء، قالت عائشة: فعاتبني أبو بكر وقال ما شاء الله أن يقول، وجعل يطعن بيده فى خاصرتي فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أصبح على غير ماء، فأنزل الله آية التيمم {فتيمموا صعيدا طيبا} فقال أسيد بن حضير: ما هي بأول بركتكم يا آل أبى بكر، قالت: فبعثنا البعير الذى كنت عليه فوجدنا العقد تحته. . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم کسی سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینے سے) نکلے حتی کہ ہم بیداء یا ذات الجیش کے مقام پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ صحابہ اسے تلاش کرنے کے لئے رک گئے اور وہاں پانی نہیں تھا اور نہ لوگوں کے پاس ہی پانی تھا لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو روک لیا ہے، نہ یہاں پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے، تو انہوں نے کہا: تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کو روک لیا ہے، نہ یہاں پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے، پھر مجھے (میرے ابا) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ملامت کی اور جو اللہ چاہتا تھا کہا: وہ میری کوکھ پر ہاتھ چبھو رہے تھے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے حرکت نہیں کر سکتی تھی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سو رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک سوئے رہے حتی کہ صبح تک پانی نہ ملا تو اللہ نے تیمم والی آیت نازل فرمائی: «فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا» پس پاک مٹی سے تیمم کرو۔ [النساء: 43، المائده: 6] تو سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے (خوش ہو کر) فرمایا: اے آل ابوبکر! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے، پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو اس کے نیچے سے میرا ہار مل گیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 69]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 334، ومسلم 367، من حديث مالك به * فى الأصل: الْخُضَيْرِ وهو خطأ]

تفقه:
➊ مردوں کے ساتھ سفر میں ان کی عورتیں بھی جا سکتی ہیں، خواہ سفر جہادی ہو یا کوئی عام سفر ہو۔
➋ کہتے ہیں کہ حدیث بالا میں سفر سے مراد غروہ بنی المصطلق والا سفر تھا اور صلصل یا ابواء نامی مقام پر ہار گم ہوا تھا۔ دیکھئے [التمهيد 19/267]
➌ اگر کوئی شخص اتنا مجبور ہو جائے کہ تیمّم بھی نہ کر سکے مثلاً اسے کسی نے باندھ رکھا ہو یا وہ ایسے مقام پر قید ہو جہاں پاک مٹی نہ ہو تو وہ کیا کرے گا؟ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ اس موقع پر (تیمّم کے حکم سے پہلے) لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی تھی۔ [ح 5882] یہ حدیث [صحيح مسلم 367/109، دارالسلام: 817، اور سنن ابي داود 317، وسنده صحيح] وغیرہما میں بھی موجود ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ درج بالا مجبور و اضطراری حالت والا شخص ص حالت میں نماز ترک نہیں کرے گا بلکہ وضو اور تیمم نہ ہونے کی صورت میں بھی نماز ضرور پڑھے گا اور الله سے دعا کرے گا کہ الله اسے بخش دے اور اس مصیبت سے نجات دلائے۔ دیکھئے [التمهيد 275/19، 276،]
اس کے بعد اگر وہ جلدی ہی اس اضطراری حالت سے نکل جائے تو بہتر ہے کہ احتیاط کے طور پر قریبی گذشتہ نمازوں کی قضا پڑھ لے اور اگر لمبا عرصہ اس حالت میں رہے تو مجبورِ محض ہونے کی وجہ سے اس مسئلے میں مرفوع القلم ہے۔ ان شاء اللہ
➍ اگر نماز جنازے کا وقت ہو جائے اور جنازہ پڑھنے والے کا وضو نہ ہو تو وہ کیا کرے؟
● سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تمھیں جنازہ فوت ہونے کا ڈر ہو اور تم بے وضو ہو تو تیمّم کرکے جنازہ پڑھ لو۔ [مصنف ابن بي شيبه 3/305 ح11467، وسنده حسن]
● عطاء بن ابی رباح نے کہا: اگر تمھیں جنازہ فوت ہونے کا ڈر ہو تو تیمّم کرکے پڑھ لو۔ [ابن ابي شيبه ح11471، وسنده صحيح]
● حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی فتویٰ دیا ہے۔ [ابن ابي شيبه ح11473، وسنده حسن]
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ورنہ ہار تلاش کرنے کے لئے اتنا وقت نہ لگتا اور آپ فرما دیتے کہ ہار اونٹ کے نیچے پڑا ہوا ہے۔
➏ باپ اپنی اولاد کو ان کی کوتاہی پر سزا دے سکتا ہے۔
➐ تیمم کے لئے پاک مٹی کا ہونا شرط ہے لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ چونے، سرمے، چادر اور سرہانے وغیرہ پر بھی تیمم ہو جاتا ہے، ان کا قول غلط ہے۔
➑ امت پر آل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے بہت سے احسانات ہیں۔
➒ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مشکل کشا نہیں ورنہ پانی کی کمی کا یہ مسئلہ ہی نہ ہوتا۔
➓ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر بے حد مہربان ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 384   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 311  
´تیمم کی ابتداء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، یہاں تک کہ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے، تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تلاش کرنے کے لیے ٹھہر گئے، آپ کے ساتھ لوگ بھی ٹھہر گئے، نہ وہاں پانی تھا اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا، تو لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے کہنے لگے کہ عائشہ نے جو کیا ہے کیا آپ اسے دیکھ نہیں رہے ہیں؟ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو ایک ایسی جگہ ٹھہرا دیا جہاں پانی نہیں ہے، اور نہ ان کے پاس ہی پانی ہے، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سوئے ہوئے تھے، تو وہ کہنے لگے: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو ایسی جگہ روک دیا جہاں پانی نہیں ہے، نہ ہی ان کے پاس پانی ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری سرزنش کی، اور اللہ تعالیٰ نے ان سے جو کہلوانا چاہا انہوں نے کہا، اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، میں صرف اس وجہ سے نہیں ہلی کہ میری ران پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے یہاں تک کہ بغیر پانی کے صبح ہو گئی، پھر اللہ عزوجل نے تیمم کی آیت نازل فرمائی، اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے آل ابوبکر! یہ آپ کی پہلی ہی برکت نہیں، پھر ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا، تو ہمیں ہار اسی کے نیچے ملا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 311]
311۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ ہار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بڑی بہن اسماء سے صرف پہننے کے لیے لیا تھا۔
➋ یہ واقعہ دلیل ہے کہ کوئی شخص عالم الغیب نہیں جب تک اللہ تعالیٰ خبر نہ دے ورنہ ادھر ادھر تلاش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ آج کل یہ کہا جانے لگا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب تو جانتے تھے مگر تواضعا اور کسر نفسی کے پیش نظر آپ نے باخبر نہیں کیا اور خاموش رہے، یہ نرا اٹکل پچو اور بے دلیل مفروضہ ہے نیز اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر ادھر سے ڈھونڈنا بے مقصد ٹھہرتا ہے اور یہ طریقہ شان رسالت کے یکسر منافی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 311   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 324  
´پانی اور مٹی دونوں نہ ملے تو آدمی کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور کچھ اور لوگوں کو بھیجا، یہ لوگ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ڈھونڈ رہے تھے جسے وہ اس جگہ بھول گئیں تھیں جہاں وہ (آرام کرنے کے لیے) اتری تھیں، (اسی اثناء میں) نماز کا وقت ہو گیا، اور یہ لوگ نہ تو باوضو تھے اور نہ ہی انہیں (کہیں) پانی ملا، تو انہوں نے بلا وضو نماز پڑھ لی، پھر ان لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو اللہ عزوجل نے تیمم کی آیت نازل فرمائی، تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا) اللہ آپ کو اچھا بدلہ دے، اللہ کی قسم! جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جسے آپ ناگوار سمجھتی رہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے بہتری رکھ دی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 324]
324۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب کا استدلال یہ ہے کہ صحابہ نے پانی نہ ملنے کی صورت میں بلاوضو نماز پڑھی اور آپ نے انکار نہیں فرمایا۔ اب تیمم کا حکم آنے کے بعد اگر مٹی بھی نہ ملے تو صحابہ کے طرزِ عمل کی روشنی میں وضو اور تیمم کے بغیر نماز پڑھ لیں گے اور یہ مسلک ہے امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کا، البتہ امام شافعی رحمہ اللہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور یہی موقف درست ہے۔ اس کے بخلاف امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس صورت میں نماز نہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ جب پانی یا مٹی ملے، پھر نماز پڑھی جائے گی، جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تو پڑھ لی تھی اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انہیں برقرار بھی رکھا۔ امام مالک وقت کے بعد ضروری نہیں سمجھتے۔
➋ یہ حدیث پیچھے بھی گزری ہے، مگر اس میں بلاوضو نماز پڑھنے کا ذکر نہیں۔ (دیکھیے، حدیث: 311)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 324   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4608  
4608. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے کہ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے کہ مقام بیداء پر میرا ہار گم ہو گیا۔ نبی ﷺ نے وہیں اپنی سواری روک دی اور نیچے اتر پڑے۔ پھر اپنا سر مبارک میری گود میں رکھ کر سو گئے۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ (مکا) مار کر فرمایا کہ ایک ہار کی وجہ سے تم نے لوگوں کو یہاں روک رکھا ہے لیکن میں رسول اللہ ﷺ کے آرام کی وجہ سے بےحس و حرکت بیٹھی رہی جبکہ مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ جب نبی ﷺ صبح کے وقت بیدار ہوئے تو پانی کی تلاش شروع ہوئی لیکن وہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ﴾ حضرت اسید بن حضیر ؓ نے کہا: اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ تعالٰی نے لوگوں کو برکت عطا فرمائی ہے۔ یقینا تم لوگوں کے لیے خیر و برکت کا باعث ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4608]
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث میں ہے کہ اس واقعے کے پس منظر میں آیت تیمم نازل ہوئی تیمم کا ذکر دو مقامات پر ہےایک تو سورہ نساء آیت: 43۔
میں اور دوسرے سورہ مائدہ آیت: 6۔
میں، اس حدیث میں آیت تیمم سے مراد کون سی آیت ہے؟ علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس سے مراد سورہ نساء کی آیت ہے کیونکہ سورہ مائدہ والی آیت: 6۔
کو آیت الوضو کہا جاتا ہے جبکہ سورہ النساء کی آیت میں وضو کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ان کے نزدیک آیت تیمم سے مراد سورہ نساء والی آیت ہے لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک اس سے مراد سورہ مائدہ کی آیت ہے کیونکہ دوسری آیت حدیث جو حضرت عمرو بن حارث سے مروی ہے۔
اس میں اس کی صراحت ہے۔

حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ترجیح دی ہے کیونکہ وضو کا حکم تو پہلے سے موجود تھا البتہ پانی کی عدم موجود گی میں کیا کرنا چاہیے وہ اس حکم سے ناواقف تھے اس لیے آیت تیمم سے ان کی مشکل کو حل کیا گیا، پھر اس آیت کا آغاز وضو کے حکم سے کیا گیا ہے تاکہ اس کی فرضیت کو قرآن کا حصہ بنا دیا جائے حالانکہ اس کا حکم نزول آیت سے پہلے موجود تھا۔

بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت کا آغاز جس میں وضو کا ذکر ہے یہ حصہ بہت پہلے نازل ہو چکا تھا پھر کچھ عرصہ بعد وہ حصہ نازل ہوا جس جس میں تیمم کا ذکر ہے، لیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒ کی ذکر کردہ دوسری حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری آیت ایک ہی دفعہ نازل ہوئی تھی۔
(فتح الباري: 562/1، 563)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4608