سنن دارمي
من كتاب الاطعمة -- کھانا کھانے کے آداب
28. باب في الْوَلِيمَةِ:
ولیمہ کا بیان
حدیث نمبر: 2104
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ قَدْ صَنَعَ طَعَامًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَكَذَا وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، قَالَ: يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا، وَأَشَارَ إِلَى عَائِشَةَ، قَالَ: لَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الثَّانِيَةَ: وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَهَذِهِ؟"قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَائِشَةُ فَأَكَلَا مِنْ طَعَامِهِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کھانا بنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اپنے ہاتھ کے اشارے سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کھانے کے لئے تشریف لے چلئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارے سے فرمایا کہ یہ بھی میرے ساتھ چلیں؟ اس نے کہا: (اتنی گنجائش نہیں)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے توجہ ہٹا لی، اس نے دوبارہ اشارۃً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعوت کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کیا، اس نے ویسا ہی جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس کی طرف سے توجہ ہٹا لی۔ اس شخص نے پھر تیسری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اشارةً چلنے کے لئے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کیا تو اس نے کہا: انہیں بھی لے چلئے، چنانچہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں گئے اور اس کے دسترخوان سے کھانا تناول فرمایا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2111]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2037]، [نسائي 158/6]، [أحمد 123/2]، [أبويعلی 3354]، [ابن حبان 5301]

وضاحت: (تشریح حدیث 2103)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فارسی ہمسایہ کی دعوت اس لئے قبول نہ کی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بھوکی تھیں، اور یہ حسنِ معاشرت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے کہ تنہا دعوت اڑانا پسند نہ فرمایا، اور جب اس شخص نے اُم المومنین کو بھی ساتھ لے چلنے کی اجازت دیدی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول فرمائی، دعوت قبول کرنا واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت قبول نہ کرنے کی علماء نے کئی وجوہات تحریر کی ہیں۔
ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار تھا۔
دوسرے یہ کہ صرف دعوتِ ولیمہ قبول کرنا واجب ہے اور کوئی دعوت قبول کرنا واجب نہیں (والله اعلم)۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اشارے سے بھی بات چیت اور عمل کیا جا سکتا ہے اور شریعت میں اس کا اعتبار ہے حتیٰ کہ طلاق کا بھی اشارہ کیا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
اسی لئے امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو کتاب الطلاق میں ذکر کیا ہے۔