سنن دارمي
من كتاب الاطعمة -- کھانا کھانے کے آداب
31. باب في الأَكْلِ مُتَّكِئاً:
تکیہ لگا کر کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2108
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، حَدَّثَنِي أَبُو جُحَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا آكُلُ مُتَّكِئًا".
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ٹیک (یا تکیہ) لگا کر نہیں کھاتا ہوں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2115]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5398]، [أبوداؤد 3769]، [ترمذي 1830]، [ابن ماجه 3362]، [أبويعلی 884]، [ابن حبان 5240]، [الحميدي 915]، [ترمذي فى الشمائل 124، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح احادیث 2106 سے 2108)
یعنی میرے کھانا کھانے کی کیفیت یہ ہے کہ میں ٹیک لگا کر یا تکیہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔
تکیہ یا ٹیک لگا کر کھانا تکبر و غرور کی نشانی ہے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کھانے سے پرہیز کیا، بعض علماء نے کہا کہ یہ اہلِ عجم کی نشانی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو زانو یعنی اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھاتے یا ایک پیر بچھا کر اور ایک پیر کھڑا کر کے کھاتے تھے جو عاجزی اور انکساری کی علامت ہے، آلتی پالتی مار کر چار زانوں بیٹھ کر کھانا علماء نے دنیا داروں کی علامت قرار دیا ہے جس سے بسیار خوری کی عادت پڑ جاتی ہے اور آدمی خوب کھاتا ہے جس سے پیٹ نکل آتا ہے، مذکورہ بالا حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اس طرح پھیل کر نہ بیٹھے کہ زیادہ کھایا جائے۔
واللہ اعلم۔