سنن دارمي
من كتاب الاشربة -- مشروبات کا بیان
2. باب في تَحْرِيمِ الْخَمْرِ كَيْفَ كَانَ:
شراب کس طرح حرام ہوئی؟
حدیث نمبر: 2126
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: فَنَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، قَالَ: فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: اخْرُجْ فَانْظُرْ مَا هَذَا. قَالَ: فَخَرَجْتُ فَقُلْتُ: هَذَا مُنَادٍ يُنَادِي:"أَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ". فَقَالَ لِيَ: اذْهَبْ فَأَهْرِقْهَا، قَالَ: فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ. قَالَ: وَكَانَتْ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ. فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: قُتِلَ قَوْمٌ وَهِيَ فِي بُطُونِهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا سورة المائدة آية 93.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا کہ شراب کی حرمت نازل ہوئی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) ایک منادی سے (حرمت کا) اعلان کرایا تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جاؤ دیکھو یہ کیسا اعلان ہے؟ چنانچہ میں باہر گیا (تو دیکھا) کہ منادی ندا لگا رہا ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: جاؤ اور اسے بہا دو (چنانچہ انہوں نے ساری شراب بہا دی) جو مدینے کی گلیوں میں بہنے لگی، ان دنوں کھجور کی شراب تھی۔ بعض لوگوں نے کہا: بہت سے لوگ اس حالت میں شہید کر دیئے گئے کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «لَيْسَ عَلَى الَّذِيْنَ .....» [المائده: 93/5] ، یعنی: وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے جو وہ پہلے کھا چکے ہیں جبکہ انہوں نے تقوی اختیار کیا اور ایمان لے آئے ... الخ۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2134]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2464]، [مسلم 1980]، [أبوداؤد 2986]، [أبويعلی 3008]، [ابن حبان 4945]، [الحميدي 1244]

وضاحت: (تشریح حدیث 2125)
اس حدیث سے بہت سے مسائل معلوم ہوئے، شراب کی حرمت بتدریج نازل ہوئی، شراب پینے والوں کے لئے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہربانی و رحمت تھی لیکن جب حرمت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے اس کے عادی ہونے کے باوجود یکسر چھوڑ دی اور یہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ہیں حکم دیتے ہیں کہ ساری شراب پھینک دی جائے، اطاعت و فرماں برداری، اتباع و سپردگی کی یہ اعلیٰ مثال ہے جب حکم سن لیا تو سمعنا و اطعنا کے علاوہ وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے، رضی اللہ عنہم وارضاہم۔
گرچہ اس وقت شراب کھجور سے بنتی تھی لیکن یہ حکم ہر نشہ آور شراب کا ہے، چاہے وہ کسی بھی چیز سے بنائی جائے۔
شراب کی حرمت سے پہلے جو لوگ شراب پیتے تھے اور وہ اسی حالت میں انتقال کر گئے تو یہ بعد کا حکم ان کے لیے کسی ضرر کا باعث نہ ہوگا، نیز یہ کہ ایمان و تقویٰ شعاری الله تعالیٰ کی پکڑ اور عذاب سے بچا دیتے ہیں۔
اس حدیث میں شراب کو سڑک اور گلیوں پر بہا دینے کی بات ہے تو شاید صحابہ کرام کا مقصد اس سے یہ رہا ہو کہ تمام لوگوں کو اس کی حرمت کا پتہ چل جائے، کیونکہ راستے اور گلی سڑک پر ایسی چیز ڈالنا جس سے گذرنے اور چلنے والوں کو تکلیف ہو جائز نہیں، ایمان کی ادنیٰ علامت راستے سے ایذا رساں چیز کو ہٹا دینا ہے۔
واللہ اعلم۔