صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
12. بَابُ قَوْلِهِ: {لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے لوگو! ایسی باتیں نبی سے مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں وہ باتیں ناگوار گزریں“۔
حدیث نمبر: 4622
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ قَوْمٌ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتِهْزَاءً، فَيَقُولُ الرَّجُل: مَنْ أَبِي؟ وَيَقُولُ الرَّجُلُ: تَضِلُّ نَاقَتُهُ، أَيْنَ نَاقَتِي؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِمْ هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101 حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ كُلِّهَا".
ہم سے فضل بن سہل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالنضر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوخیثمہ نے بیان کیا، ان سے ابوجویریہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاقاً سوالات کیا کرتے تھے۔ کوئی شخص یوں پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے؟ کسی کی اگر اونٹنی گم ہو جاتی تو وہ یہ پوچھتے کہ میری اونٹنی کہاں ہو گی؟ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏» کہ اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزرے۔ یہاں تک کہ پوری آیت پڑھ کر سنائی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4622  
4622. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ سے مذاق کے طور پر سوالات کرتے تھے۔ کوئی آدمی کہتا: میرا باپ کون ہے؟ کوئی دوسرا پوچھتا: میری اونٹنی گم ہو گئی ہے وہ کہاں ہے؟ تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: "اے ایمان والو! تم ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگواری ہو گی۔۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4622]
حدیث حاشیہ:

دراصل منافق لوگ رسول اللہ ﷺ سے مذاق اور استہزاء کے طور پر فضول اور غیر ضروری سوالات کرتے تھے اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اس قسم کے سوالات کی ترغیب دیتے تھے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ؓ نے اپنے باپ کے متعلق سوال کر لیا جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 93)

یہ سوالات اور احکام دونوں سے متعلق ہوتے تھے چنانچہ بعض روایات میں اس آیت کا سبب نزول حج کے حکم کو بیان کیا گیا ہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3055)

بہر حال بے معنی اور فضول سوالات کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ ان سے شکوک و شبہات بڑھتے ہیں اور دوسرے احکام میں سختی کا بھی اندیشہ ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے انبیاء سے بکثرت سوالات کرتے تھے۔
اور ان کے موقف سے اختلاف کرتے تھے۔
'' (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6113۔
(1337)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4622