صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
13. بَابُ: {مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ نے نہ بحیرہ کو مقرر کیا ہے، نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو“۔
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ، يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ وَإِذْ هَا هُنَا صِلَةٌ الْمَائِدَةُ أَصْلُهَا مَفْعُولَةٌ كَعِيشَةٍ رَاضِيَةٍ وَتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ وَالْمَعْنَى مِيدَ بِهَا صَاحِبُهَا مِنْ خَيْرٍ يُقَالُ مَادَنِي يَمِيدُنِي. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مُتَوَفِّيكَ: مُمِيتُكَ.
‏‏‏‏ «وإذ قال الله» (میں «قال») معنی میں «يقول» کے ہے اور «إذ» یہاں زائد ہے۔ «المائدة» اصل میں «مفعولة» ( «ميمودة») کے معنی میں ہے گو صیغہ فاعل کا ہے، جیسے «عيشة»، «راضية» اور «تطليقة»، «بائنة» میں ہے۔ تو «مائدة» کا معنی «مميده» یعنی خیر اور بھلائی جو کسی کو دی گئی ہے۔ اسی سے «مادني يميدني» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: «متوفيك» کے معنی میں تجھ کو وفات دینے والا ہوں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو آخر زمانہ میں اپنے وقت مقررہ پر موت آئے گی وہ مراد ہو سکتی ہے۔