سنن دارمي
من كتاب الرويا -- کتاب خوابوں کے بیان میں
11. باب الرُّؤْيَا لاَ تَقَعُ مَا لَمْ تُعَبَّرْ:
خواب جب تک پوچھا نہ جائے واقع نہیں ہوتا
حدیث نمبر: 2185
أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعَ بْنَ عُدُسٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الرُّؤْيَا هِيَ عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ يُحَدَّثْ بِهَا، فَإِذَا حُدِّثَ بِهَا، وَقَعَتْ".
سیدنا ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواب ایک پرندے کے پاؤں پر ہے (اور وہیں رہتا ہے) جب تک کہ اس کی تعبیر نہ دی جائے، پھر جہاں تعبیر دی اور وہ واقع ہوا۔ یعنی جس طرح پرندے کے پاؤں کو حرکت ہوئی اور یہ اس کے پاؤں سے گر جاتی ہے، اسی طرح خواب کی تعبیر ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2194]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5020]، [ترمذي 2278]، [ابن ماجه 3914]، [ابن حبان 6049]، [موارد الظمآن 1795]

وضاحت: (تشریح حدیث 2184)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر ایرے غیرے سے خواب کی تعبیر نہیں پوچھنی چاہیے، مبادا وه باعثِ تکلیف بات کہے اور وہ اسی طرح آ پڑے، خواب جیسا کہ گذر چکا ہے اچھے ہمدرد اور تعبیر کا علم رکھنے والے شخص کو ہی بتانا چاہیے جو رای سلیم اور فہمِ مستقیم رکھتا ہو۔
علم تعبیرِ الرؤیا الله تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرماتا ہے، نادان دوست سے تعبیر پوچھنے کا ایک واقعہ والد محترم (حفظہ اللہ) نے نقل کیا کہ کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت گر گئے ہیں، تعبیر پوچھی تو کسی نے کہا: بادشاہ سلامت کے سارے عزیز و اقارب فوت ہو جائیں گے، بادشاہ کو غصہ آیا اور اس شخص کوقتل کروا دیا، دوسرے سے تعبیر پوچھی، وہ کچھ چالاک تھا۔
اس نے کہا: آپ لمبی عمر پائیں گے اور سب کے بعد میں وفات پائیں گے۔
بات وہی ہے لیکن اس طرزِ کلام سے بادشاہ خوش ہوا، انعام سے نوازا۔
آگے 2200 پر اس کی مثال آ رہی ہے۔
والله اعلم۔