سنن دارمي
من كتاب النكاح -- نکاح کے مسائل
3. باب النَّهْيِ عَنِ التَّبَتُّلِ:
تبتل (شادی نہ کرنے) کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2204
أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ: "لَقَدْ رَدَّ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ، وَلَوْ أَجَازَ لَهُ التَّبَتُّلَ، لَاخْتَصَيْنَا".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو عورت سے الگ رہنے کی اجازت نہیں دی، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی اپنے آپ کو خصی بنا لیتے. (تاکہ عورت کا خیال ہی نہ آئے)۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2213]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5074]، [مسلم 1402]، [ترمذي 1083]، [ابن ماجه 1848]، [أبويعلی 788]، [ابن حبان 4027]

وضاحت: (تشریح حدیث 2203)
تبتل سے مراد خواہشِ نفس کو مارنا اور عورت سے دور رہنا، اسی طرح عورت کا مرد سے دور رہنا ہے، اسی طرح خصی ہونا ہے۔
اسلام میں اس کی اجازت نہیں جسے لوگ فقیری اور قلندری کا نام دیتے ہیں اور تجرد کی زندگی اختیار کرتے ہیں، نصاریٰ بھی ایسا ہی کرتے تھے اور اس کو رہبانیت کا نام دیتے تھے، یعنی دنیا و عورت اور خواہشات سے ترکِ تعلق، لیکن اسلام اور پیغمبرِ اسلام نے کہا: «لا رهبانية فى الإسلام.» آج کے پیر فقیر اور راہب و عامل شادی نہ کرنے کا ڈھونگ رچا کر دوسروں کی بہو بیٹیوں اور بہنوں کی عزت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، عمل کے نام پر خلوت میں عورتوں سے استمتاع کرتے ہیں، اور اسلام کی تعلیمات سے روگردانی کرتے شریعت کی دھجیاں اڑاتے ہیں، بے شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں، اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو ایسے دین و ایمان کے لٹیروں سے بچائے۔
آمین۔