صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
15. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”تو اگر انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بھی تو زبردست حکمت والا ہے“۔
حدیث نمبر: 4626
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ، وَإِنَّ نَاسًا يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ إِلَى قَوْلِهِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 117 - 118".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں قیامت کے دن جمع کیا جائے گا اور کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو نیک بندے نے کہا ہو گا «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم‏» میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا آخر آیت «العزيز الحكيم‏» تک۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2423  
´حشر و نشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے،
یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے،
اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔
(الانبیاء: 104)
2؎:
ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے،
اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا،
اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہا ہو،
کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے،
بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔

3؎:
اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(المائدہ: 118)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2423   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4626  
4626. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: (قیامت کے دن) تمہیں جمع کیا جائے گا۔ پھر کچھ لوگوں کو بائیں جانب (جہنم کی طرف) لے جایا جائے گا، اس وقت میں وہی کہوں گا جو ایک نیک بندے نے کہا تھا: "جب تک میں ان میں رہا ان کے حالات دیکھتا رہا۔۔ آخر آیت ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ تک [صحيح بخاري، حديث نمبر:4626]
حدیث حاشیہ:

پوری آیات کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
"میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا توتوہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے اگر تونے انھیں سزا دی تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو نے انھیں معاف فرما دے توتو زبردست ہےخوب حکمت والا ہے۔
"(المائدة: 117/5، 118)

اس آیت کریمہ میں بندوں کی عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی جلالت شان کے حوالے سے عفود مغفرت کی التجا کی گئی ہے۔
سبحان اللہ! یہ آیت کس قدر عجیب اور بلیغ ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اس آیت کو پڑھتے رہے حتی کہ صبح ہو گئی۔
(مسند أحمد: 149/5)

بہر حال اس آیت کریمہ میں حضرت عیسیٰ ؑ بڑے حکیمانہ انداز میں اللہ کے حضوربندوں کی سفارش کریں گے۔
پہلے تو اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر تو انھیں عذاب دے گا تو یہ تیرے بندے ہی ہیں نہ دم مار سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر کہیں جا سکتے ہیں اور اگر تو انھیں معاف فرما دے تو تیری شان غفاری کے کیا کہنے اور اگر تو انھیں معاف کردے تو مختار اور اگر سزا دے تو بھی مختار ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4626