سنن دارمي
من كتاب النكاح -- نکاح کے مسائل
36. باب في الْعَزْلِ:
عزل کا بیان
حدیث نمبر: 2260
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَة، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَزْلِ، فَقَالَ: "أَوَ تَفْعَلُونَ ذَلِكَ؟ فَلَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ نَسَمَةٍ قَضَى اللَّهُ تَعَالَى أَنْ تَكُونَ إِلَّا كَانَتْ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے ہو؟ تم اگر ایسا نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جس جان کے پیدا ہونے کا فیصلہ کر دیا ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گا، چاہے عزل کرو یا نہ کرو۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2269]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2229، 7409]، [مسلم 1438]، [أبوداؤد 2170]، [ترمذي 1138]، [أبويعلی 1050، 1250]، [ابن حبان 4191]، [الحميدي 764]

وضاحت: (تشریح حدیث 2259)
عزل کا معنی صحبت و جماع کرنے پر انزال کے وقت عضوِ مخصوص کو باہر نکال لینا ہے تاکہ منی باہر نکلے اور حمل قرار نہ پا سکے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرح سے عزل کو نا پسند فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تمہارا یہ عمل باطل ہے، جو جان پیدا ہونے والی مقدر ہے وہ تو اس صورت میں بھی ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔
اس حدیث سے ایسے مسائل پوچھنا بھی ثابت ہوا جن کے ذکر سے آدمی کو فطرةً شرم آئے، نیز یہ کہ اولاد دینا الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کچھ نہیں جانتا اور نہ اس کو اولاد پیدا کرنے یا روکنے کا اختیار ہے۔
مرد عورت افزائشِ نسل کے اسباب ہیں، خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، عزل کو عام طور پر مکروہ سمجھا گیا ہے کیونکہ اس میں قطع اور تقليلِ نسل ہے۔
دورِ حاضر میں جو فیملی پلاننگ کے نام سے تقلیلِ نسل کے پروگرام جاری و ساری ہیں عزل سے اس کو جائز قرار دینا صحیح نہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔